’قابل اعتراض‘ مواد کو بلاک کرنے کا اختیار دیتا ہے۔مشترکہ ایکشن کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انٹرنیٹ کیفے، دفاتر، یونیورسٹیاں کی طرز کے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ڈیٹا اسٹور رکھنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، جس سے ان کے آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری نہیں ہے کہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والے بڑے ادارے پہلے ہی اپنے سسٹمز میں انفارمیشن اکھٹا رکھتے ہیں۔انٹرنیٹ پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کنوینئر وہاج السراج نے کمیٹی پر زور دیا کہ آزادانہ تحقیقات کے اختیارات فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے ایک غیرجانبدار ادارے کو منتقل کیا جائے۔پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے بھی آئین کے آرٹیکل 19 سے متن کی سائبر کرائم بل میں شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کسی رہنمائی کے بغیر اس قانون کی تشرح کیسے کی جائے گی۔پاکستان سافٹ ویئر ہاو¿س ایسوسی ایشن کی صدر جہان آراء نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ موجودہ مسودہ طلبائ اور مہم جو افراد کی ریسرچ اور تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔پی ٹی آئی کے امجد علی خان ، ایم کیو ایم کے سید علی رضا عابدی اور مسلم لیگ ن کے خسرو بختیار کا خیال تھا کہ اس بل سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے چاہیے، جبکہ مسلم لیگ ن کے اراکین جو پہلے چاہتے تھے کہ اس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے، انہوں نے اس کی خرابیاں دور کرنے کے لیے انتظار کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔وزیرمملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے اپنے مو¿قف میں نرمی کرنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ کمیٹی کے اراکین اس قانون کی غلطیوں کو درست کرنے پر مزید وقت صرف کریں۔انوشہ رحمان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے پاس آج اس دستاویز کے 44 صفحات ہیں، یہ کمیٹی اس میں تبدیلی کے لیے ذمہ دار ہے اور اس کو 13 صفحات تک کم کررہی ہے۔“انہوں نے کہا کہ اس بل میں سیکشن 34 وزارت کی جانب سے نہیں بلکہ کمیٹی کے اراکین نے شامل کیا تھا۔آج پی ٹی اے کو ہائی کورٹ کی جانب سے انٹرنیٹ پر ناگوار سمجھے جانے والے مواد کو بلاک کرنے اور منظم کرنے کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔انوشہ رحمان نے کہا کہ سائبر کرائم بل ایسے بے لگام اختیارات پر پابندی عائد کرتا ہے اور عوام خاص طور پر خواتین اور بچوں کو مزید آزادیاں دیتا ہے۔