لاہور( این این آئی) وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لیا جانا غیر معمولی واقعہ ہے اور بہت ہی اہم عہدوں پر رہنے والوں کے حوالے سے اس طرح کی کارروائی کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں ،فیض حمید کے خلاف جو الزامات تھے وہ یقینا ثابت ہو چکے ہوںگے اس کے بعد ہی اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ہے ،نا قابل تردیدثبوت آ چکے ہوں گے تو اس کے بعد تحویل میں لیا گیا ہو گا اوریہ کوئی چھوٹا قدم نہیں ہے اور ان کا فیلڈ کورٹ مارشل ہوگا،جو بڑے با خبر لوگ ہیں ان کی رائے تھی کہ پی ٹی آئی کی جو حکمت عملی ہے اس میں فیض حمید کا بڑا عمل دخل ہے ۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کے حوالے معاملہ ہر کسی کے علم میں تھا لیکن ان کا دیگر حوالوں سے بھی نام آتا رہا ہے اور تحویل میں لئے جانے میں وہ چیزیں بھی اثر انداز ہوئی ہوں گی ۔ انہوں نے کہا کہ ٹاپ سٹی انکوائری سے متعلق اوپن با ت تھی اور اس کا سب کو معلوم تھا لیکن اس کا اندازہ بہت کم تھا اس سطح پر کوئی ایکشن ہوگا ،اس ایکشن سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاک فوج میں ایک ادارے کے طور پر احتساب کا موثر نظام موجود ہے اوریہ ایک سنگ میل ہے اور بطورہ ادارہ اس کی ساکھ اور لوگوں کے اعتماد میں بڑا اضافہ ہوگاکہ اس ادارے میں کوئی پوزیشن ہو کوئی آدمی بھی غلط کرے گا تو اس کی پکڑ ہو گی ۔انہوں نے فیض حمید کے مسلم لیگ (ن) سے رابطوں کے حوالے سے کہا کہ ہمارے ساتھ ان کے رابطے ایسے ہی تھی کہ ہمارے خلاف پی ٹی آئی دور میں جو کیسز بنتے رہے ہیں یا گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں میرے پاس اس کی کوئی انکوائری یا ثبوت تو نہیں ہیں لیکن اس کے تانے بانے ان کی طرف ہی جاتے تھے ۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بجٹ کا پاس ہونا ، لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو سب باتیں ان کی ذات کے گرد گھومتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جو بیان جاری ہوا ہے ہمیں اس سے بہت زیادہ آگے پیچھے نہیں ہونا چاہیے اور اس بات کی امید اوراعتماد ہونا چاہیے کہ پیشرفت ہو گی اور اس سے آگاہ بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 26نومبر کے لانگ مارچ جس میں عمران خان انسانوں کا سمندر لے کر آئے تھے ،رک جائو آگے بڑھو کس دن پہنچنا ہے اس وقت بھی یہ باتیں کی جاتی تھیں کہ یہ ساری ہدایات جنرل فیض حمید کی طرف سے ہو رہی ہیں لیکن میں اس کی بھی تصدیق یا ثبوت نہیں رکھتا ۔ انہوں نے کہا کہ 9مئی کے بعد پی ٹی آئی کے حوالے سے جو سارا سلسلہ چل رہا ہے جو لوگ بڑے با خبر ہیں ان کی رائے تھی کہ پی ٹی آئی کی جو حکمت عملی اس میں ان کا عمل دخل ہے ان کی طرف سے ہدایات دی جاتی ہیں۔جو اقدامات پی ٹی آئی کی طرف سے نو مئی سے پہلے یا بعد میں کئے گئے یا آج کل کی جو حکمت عملی ہے اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں لیکن یہ بات بالکل موجود ہے کہ ان کا عمل دخل تھا تاہم اس کے بارے میں میری جماعت یا حکومت نے انکوائری نہیں کی جس سے یہ چیز ثابت ہوگئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے ہے میں حتمی بات نہیں کر سکتا لیکن فوجی تحویل میں لیا جانا معمولی نہیں ،ان کے خلاف تھیں جو الزامات تھے اس کی انکوائری ہو تی رہی ہے وہ یقینا ثابت ہو چکی ہوںگی اس کے بعد ہی اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ اس اقدام کے بعد انکوائری ہو گی اورمعلوم ہوگا کہ کوئی بات غلط یاصحیح ہے ،یہ چیزیں بلا شک و شبہ ہے کہ ان کے نا قابل تردیدثبوت آ چکے ہوں گے اس کے بعد تحویل میں لیا گیا ہو گا اوریہ کوئی چھوٹا قدم نہیں ہے اور ان کا فیلڈ کورٹ مارشل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی فوج میں کے ادارے میں ڈسپلن کے حوالے سے آسمان کی بلندیوں کو چھونے والی بات ہے اورپاک فوج نے جو مثال قائم کی ہے اورجو سامنے آئی ہے اس کے بعد اس میں کوئی گنجائش رہ جاتی ہے ۔فوج کے ادارے میں ایسا نظام موجود ہے کہ وہاں جس کسی نے غلط کیا ہے اگر ثابت ہو گیا تو پھر بچت نہیں ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اس میں اور لوگ شامل ہوں گے کیونکہ فرد واحد تو کچھ نہیں کر سکتا ۔
انہوںنے اس سوال کہ فیض حمید نے مسلم لیگ (ن) کو حکومت لینے کی پیشکش کی تھی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات خواجہ آصف سے سنی ہے لیکن میں اس کا گواہ نہیں ہوں ،اگر خواجہ آصف نے کہا ہے تو یقینا ایسی بات ہوئی ہو گی،فیض حمید کی سیاسی معاملات میں بہت مداخلت تھی اور وہ دونوں بڑے عہدوں پر رہتے ہوئے بڑے دھڑلے سے مداخلت کرتے تھے اورکبھی کوئی معاملہ چھپاتے نہیں تھے۔