برلن(این این آئی)جرمنی میں مسلم طلبہ کے زیرِاثر اسلام قبول کرنے والے مسیحی طلبہ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے مغربی میڈیا نے پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے جس کا بنیادی مقصد جرمنی، فرانس اور دیگر بڑے یورپی ممالک میں مسلم ممالک سے آنے والے تارکینِ وطن کے لیے نفرت پیدا کرنا ہے۔ برطانوی اخبار نے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مسلمانوں سے نفرت کا رنگ نمایاں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں بہت سے نوجوان طلبہ مسلم تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے گھبراکر اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اخبار کا استدلال ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث مسیحی طلبہ خود کو اجنبی اور غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔رپورٹ کے مطابق جرمنی ایسے والدین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو اسلام میں غیر معمولی دلچسپی لینے والے اپنے بچوں کو کانسلنگ سینٹر لارہے ہیں۔ جرمنی ٹیبلائڈ بلڈ کے مطابق والدین بتاتے ہیں کہ بچے اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں وہ اپنے ہی ماحول میں اجنبی ہوکر نہ رہ جائیں۔رپورٹ کے مطابق کرمنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (لوئر سیگزنی)نے حالیہ تحقیق میں بتایا ہے کہ 67.8 فیصد طلبہ کہتے ہیں کہ وہ ملکی قوانین پر قرآنی احکام کو ترجیح اور فوقیت دیتے ہیں۔ اور 45.6 فیصد طلبہ کے خیال میں شرعی حکومت حکمرانی کی بہترین شکل ہے۔برلن اور فرینکفرٹ میں متعدد اسکولوں میں مسلم طلبہ کی تعداد 80 فیصد تک ہے۔
یہ تبدیلی ایک عشرے کے دوران تارکینِ وطن کو بڑی تعداد میں قبول کرنے کا نتیجہ ہے۔ایک ریاستی اسکرٹنی آفیسر نے بتایا کہ مسلم اکثریت والے اسکولوں میں جب مسلم طالبات اسکارف نہیں لیتیں اور لڑکوں سے آزادانہ ملتی ہیں تو مسلم طلبہ انہیں خبردار کرتے ہیں کہ اسلامی شعائر نہ بھولیں اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ اس حوالے سے والدین اور خاندان کے بزرگ بھی لڑکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سخت مذہبی ماحول والے گھرانوں کے طلبہ قرآن کی تعمیل کے حوالے سے غیر لچکدار طرزِ فکر و عمل بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں متوازی سماجی ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں جس سروے کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں 308 مسلم طلبہ سے آرا طلب کی گئی تھیں۔ نصف سے زائد طلبہ کا کہنا تھا کہ صرف اسلام ہی ان کے مسائل احسن طریقے سے حل کرسکتا ہے۔ 36.5 فیصد کا کہنا تھا کہ جرمن معاشرے کی شرعی حوالے سے تطبیق کی جانی چاہیے۔