اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مالی سال2023-24کا145 کھرب کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 1150 ارب روپے ،ملکی دفاع کیلئے 1804 ارب روپے ،سول انتظامیہ کے اخرجات کیلئے 714ارب روپے رکھے گئے ہیں،ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 9200 ارب روپے لگایا گیا ہے،وفاقی نان ٹیکس محصولات 2963 ارب روپے کے ہوں گے، وفاقی حکومت کی کل آمدن68 کھرب 87 ارب روپے ہوگی،
اگلے مالی سال کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد،گریڈ 16-1 اور 22-17 کے سرکاری ملازمین کے لیے بالترتیب 35 اور 30 فیصد اضافہ ،کم از کم اجرت 32ہزار روپے ،ای او بی آئی کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ،پرائم منسٹر یوتھ لون کیلئے 10 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے ،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا،معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم،کان کنی کیلئے درکار مشینری، رائس مل کی مشینری اور مشین کے آلات کیلئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ اور 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے 30 ارب روپے مختص کر نے کی تجویز دی گئی ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس سے متعلقہ سروسز کے برآمد کنندگان کیلئے آئی ٹی آلات کی ڈیوٹی سے مستثنیٰ درآمد کی اجازت دیکر ان کی برآمدی آمدنی کے ایک فیصد کی قیمت کے برابر کرنے ،سابقہ فاٹا کے علاقوں سے درآمد کی گئی مشینری اور آلات پر چھوٹ میں جون 2024 تک توسیع کی تجویز دے دی گئی ،معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے استعمال شدہ (سیکنڈ ہینڈ)کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کیلئے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور فلیٹ پینلز، مانیٹرز اور پروجیکٹرز کے پارٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کی تجویز ،کمرشل امپورٹرز درآمد کنندگان کے لیے اشیا کی درآمد پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.5فیصد اضافہ کیا گیا ،ہیوی کمرشل وہیکلز کے نان لوکلائزڈ (سی کے ڈی)پر کسٹم ڈیوٹی کو 10فیصد سے کم کر کے فیصد کرنے کی تجویز ،بینک سے 50 ہزار نکالنے والے نان فائلر کیلئے ٹیکس میں اضافہ ،ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کر نے کی تجویز دی گئی ہے
صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کیلئے ایک ارب روپے مختص ،ڈیبٹ/کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈز کے ذریعے نان،ریزیڈنٹ کو ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد سے 5 فیصد تک اضافے اورکیفے، فوڈ پارلر، وغیرہ اور اسی طرح تیار/پکا ہوا کھانا فراہم کرنے والی دیگر آؤٹ لیٹس وغیرہ میں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز، موبائل والٹ یا کیو آر اسکیننگ کے ذریعے ادائیگی کی صورت میں 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے،مختلف سیکٹرز میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کے باعث ٹیٹرا پیک دودھ، پیکٹ کی دہی، ڈبے میں بند مکھن اور پنیر مہنگے ہوں گے، ٹن پیک مچھلی، ڈبے میں بند مرغی کا گوشت اور انڈوں کے پیکٹ کی قیمت بڑھ جائے گی جن پر18 فیصد ٹیکس لگ گیا
برانڈڈ کپڑے مہنگے ہوں گے جن پر جی ایس ٹی 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دیا گیا، آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں ایشیا میں بننے والی پرانی اور استعمال شدہ 1300 سی سی سے بڑی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم کرنے کی تجویز ہے ،ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم ہونے کے بعد گاڑیاں مہنگی ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاہے کہ رواں سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا ہے ،حکومت کی کوشش ہے ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے،روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں اور کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں،آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں
ہماری ہرممکن کوشش ہے جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے،نئے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کیلئے آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے دونوں میں سے جو رقم کم ہو، رعایت دی جائے گی۔جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں۔ انہوںنے مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی
مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا
ان حالات میں آنا فانا سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آگیا۔انہوںنے کہاکہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکانٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے
آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحا خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا
انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریبا 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔اسحق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گئے
جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جو کہ جون 2022 تک 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔انہوںنے کہاکہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی
ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔وفاقی وزیر نے کہاکہ اقوام متحدہ کے ادارے ’’ایف اے او‘‘ کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا
یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے،
اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کیلئے 26ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی نمو کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔اسحق ڈار نے کہا کہ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24-2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جو کہ ایک مناسب ہدف ہے۔انہوںنے کہاکہ جلد ہی ملک عام انتخابات کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کے بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے، بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی ڈرائیورز آف گروتھ مندرجہ ذیل ہیں۔وفاقی بجٹ میں ایس ایم ایز کی نشوونما کیلئے کئی اقدامات اٹھائے گئے جن کے مطابق کنسٹرکشن، زراعت اور ایس ایم ای کی حوصلہ افزائی کے لیے ان شعبوں کو قرض فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدنی پر 39 فیصد کے بجائے 20 فیصد رعایتی ٹیکس کی سہولت اگلے 2 مالی سال تک میسر ہوگی
ایس ایم ایز کی ٹیکس مراعات کو بڑھا کر اس کے ٹرن اوور کی حد 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ روپے کی جا رہی ہے،پی ایم یوتھ قرض پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں،اسٹیٹ بینک کی ایک اسکیم کے تحت ایس ایم ای کے قرضوں کو صرف 6 فیصد مارک اپ پر ری فنانس کیا جا سکتا ہے لیکن بینک ایس ایم ای کو کریڈٹ ہسٹری نہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں، یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس رکارٹ کو دور کرنے لیے اس مد میں نئے قرضوں کا 20 فیصد تک رسک حکومت اٹھائے گی،ایس ایم ای آسان فنانس اسکیم کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے،ایس ایم ای کے لیے علیحدہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق زرمبادلہ کی باقاعدہ چینلز کے ذریعے اضافے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر موجودہ فائنل 2 فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے،- ریمٹینس کارڈ کی کیٹیگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔وزیر خزانہ کے مطابق تعلیم کے شعبے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
پاکستان انڈومینٹ فنڈ کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں،لیپ ٹاپ اسکیم کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں،اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں،بجٹ میں ویمن امپاورمنٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔بجٹ دستاویز کے مطابق نوجوانوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح 50 فیصد تک کم کرنے کی تجویز ہے،
یہ رعایت انفرادی یا اے او پی کی صورت میں 20 لاکھ روپے تک اور کمپنی کی صورت میں 50 لاکھ روپے تک ہوگی،وزیر اعظم یوتھ پروگرام اسمال لان کے تحت رعایتی ریٹ پر قرض فراہمی کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،وزیر اعظم یوتھ اسکلز پروگرام کے تحت اسپیشلائزڈ ٹریننگ دینے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ تعمیری شعبہ معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، نئے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے دونوں میں سے جو رقم کم ہو، رعایت دی جائے گی۔
انہوںنے کہاکہ وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں، انہیں تین سال تک 10 فیصد ٹیکس کریڈٹ یا 10 لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دینے تجویز ہے، اس رعایت کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔انہوںنے کہاکہ ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ سے متعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جا رہی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 400 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اگلے مالی سال کے لیے 450 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، بی آئی ایس پی کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8 ہزار 750 روپے ٹرانسفر کرنے لیے 346 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کے لیے 55 لاکھ روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ،بینظیر انڈر گریجویٹ اسکالر شپ کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،بینظیر نشوونما پروگرام کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کیلئے 35 ارب روپے ٹارگٹڈ سبسڈی کے لیے رکھے گئے ہیں،پاکستان بیت المال کیلئے 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،-یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد کی جا رہی ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق استعمال شدہ کپڑوں پر عائد 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔بجٹ دستاویز کے مطابق خام مٹیریل، بیٹریز، سولر پینل اور انورٹرز کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی پیدوارا، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کیلئے 107ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے
موجودہ حالات میں لازمی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل اور قابل تجدید توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملکی درآمدات کو کم کیا جاسکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جامشورو پاور پلانٹ کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 سو ارب روپے کی رقم فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ پاکستان اور تاجسکتان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ گزشتہ برس مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے
اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کیلئے 10 ارب 50 کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے، اسی طرح داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر تقریبا 59 ارب روپے کی فراہم ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، دیگر اہم منصوبوں میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 4 ارب 80 کروڑ، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافے کے لیے 4 ارب 45 کروڑ روپے اور وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن کی بحالی کے لیے 2 ارب 60 کروڑ کی رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ کراچی میں پینے کی پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے کے 4 اسکیم کے لیے بھی 17 ارب 50 کروڑ کی رقم مختص کی جائے گی۔بجٹ دستاویز کے مطابق شاہراہوں اور دیگر موصلات سہولیات کی ترقی کے لیے بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیںوزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کا حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اگلے مالی سال میں اس مقصد کے لیے 90 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال کی ٹیکس پالیسی کے اصول جو طے کئے گئے ہیں ان میں برآمدات میں اضافے کے لیے آئی ٹی اور آئی ٹی ان ایبلڈ سروسز کی حوصلہ افزائی،زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے غیرملکی ترسیلات کو فروغ،اقتصادی ترقی میں اضافے کے لیے مقامی صنعتوں کی سرپرستی،تعمیر اور زرعی شعبے کی ترقی،ملک میں نوجوانوں کو خودمختار بنانے کو فروغ،ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے معیشت کی ڈجیٹائزیشن،صاحب ثروت افراد پر ٹیکس کا نفاذ،مہنگائی کی وجہ سے کم آمدن طبقے کیلئے ریلیف،نان فائلرز کے لیے ٹرانزیکشن کی لاگت میں اضافہ شامل ہے ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے اور روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ زیادہ تر معاشی سرگرمیاں اشیا کی سپلائی، کانٹریکٹس پر عملدرآمد، سروسز کی فراہمی سے متعلق ہوتی ہیں، ان ٹرانزیکشنز نے حکومت کو ہونے والی آمدن میں اضافے کے لیے ایک فیصد ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے اور اس کا اطلاق افراد اور کمپنیز پر ہوگا۔اسحق ڈار نے کہا کہ جن سروسز پر رعایتی ٹیکس عائد ہوتا ہے ان کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔
اس تجویز کا اطلاق چاول، کپاس کے بیج، خورونی تیل، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا اور اسپورٹس پرسنس پر نہیں ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ امیروں پر ٹیکس عائد کرنا پاکستان کی ٹیکسیشن پالیسی کا رہنما اصول ہے، سپر ٹیکس کو ترقی پسند ٹیکسیشن میں تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔دستاویز کے مطابق کمرشل درآمدات اشیا کی درآمد کے وقت کم از کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں صنعتیں اپنے منافع پر ٹیکس ادا کرتی ہیں
اس لیے سامان کی درآمد پر تجارتی درآمد کنندگان کو ہونے والی آمدن پر کم از کم ٹیکس کے ریٹس کو معقول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان اشیا کے استعمال اور منافع پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا اس لیے تجارتی درآمد کنندگان کی طرف سے اشیا کی درآمد پر ٹیکس ریٹ میں 0.50 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے کیش ڈوائنڈیڈ تقسیم کرنے کے بجائے بونس شیئر جاری کرتی ہیں، اس لیے ان کائنڈ ڈوائنڈینڈ پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی غرض سے درج کی گئی اور غیر لسٹڈ کمپنیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ اس وقت کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں،
اوسطا ہر گھریلو مددگار کو سالانہ 6 ہزار ڈالر تنخواہ ادا کی جاتی ہے، گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر ایک سالانہ ٹیکس 2 لاکھ روپے کی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس میں کمی لانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ڈیبٹ کارڈز، کریڈٹ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے غیرملکی کرنسی کے اخراج کی حوصلہ شکنی کرنے لیے فائلر پر ودہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کی جارہی ہے جبکہ نان فائلر پر یہ شرح 10 فیصد ہوگی۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ ٹیکسٹائل اور لیدر کی مصنوعات کے رٹیلرز پر جی ایس ٹی کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے، بنیادی طور پر یہ ٹیکس برانڈیڈ ٹیکسٹائل اینڈ لیدر کے قیمتی ملبوسات اور مصنوعات پر لیا جائے گا، یہ ٹیکس معاشرے کے اس طبقہ پر عائد کیا جارہا ہے جو ایسی قیمتی اشیا خریدنے کا متحمل ہے، اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کی جائے اور پاکستان میں ایک یکساں اور ہم آہنگ ٹیکس کا نظام رائج ہو۔اسحق ڈار نے کہا کہ 2018 میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئین میں کی جانے والی 25 ویں ترمیم کے نتیجے میں فاٹا اور پاٹا کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئینی تبدیلی کو مثر طور پر عملی جامہ پہنائے، ان علاقوں کے لوگوں پر 5 سال کے لیے ٹیکسوں سے استثنی دیا گیا تھا اور یہ مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے جس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جارہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی ایشین میک گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو روکا گیا تھا، اب 13 سو سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز پر کیپنگ ختم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلاس مینوفیکچرزز ایسوسی ایشن کی ڈیمانڈ پر مقامی گلاس کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے ایسے گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقہ میں ڈیجیٹل ادائیگی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ریسٹورنٹ سروسز پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کی جارہی ہے۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے، افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے
یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مشائل اور وسائل کی کمی کی کے باوجود سرکاری ملازمین کے لیے ریلیف اقدامات کیے جارہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لیے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الائونس کی صورت میں اضافہ کیا جا رہا ہے،ڈیوٹی اسٹیشن سے باہر سرکاری سفر اور رات کے قیام کیلئے ڈیلی الانس اور مائلیج الائونس دیا جا رہا ہے،اضافی چارج/ موجودہ چارج/ ڈیپوٹیشن الائونس، آرڈرلی الائونس، معذور افراد کے لیے خصوصی کنوینس الائونس، مستقل اٹینڈنٹ الائونس (ملٹری)شامل ہیں۔بجٹ دستاویز کے مطابق سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے
سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12ہزار روپے کی جارہی ہے،آئی سی ٹی کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کیا جا رہا ہے،ملازمین اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی پنشن کو 8 ہزار 500 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کاہکہ مقروض افراد کی بیواں کی امداد کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت کے بجٹ میں اسکیمز کا اجرا کیا گیا تھا، مالی سال 2023-24 کے حوالے سے ایسی ہی اسکیم ہاسنگ بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیواں کے لیے متعارف کی جارہی ہے
اس کے تحت ان بیواں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومتِ پاکستان ادا کرے گی۔دستاویز کے مطابق سی ڈی این ایس کے شہدا اکانٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے،بہبود سیونگ سرٹفیکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں اپنی بجٹ تقریر کا اختتام کروں، میں اس امر کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل دوست اور خیرخواہ کون ہے اور ملک و قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے
میاں محمد شہباز شریف نے بطور وزیراعلی پنجاب اور اب بطور وزیراعظم پاکستان بھرپور طریقے سے خلوص نیت کے ساتھ عوامی کی خدمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت نے چودہ ماہ کے قلیل عرصے میں شدید مالی مشکلات اور سازشیوں کے باوجود عوام دوست اقدمات اٹھائے ہیں اور ملک کو صحیح معنوں میں دیوالیہ ہونے سے بچاکر، بحران سے نکال کر استحکام کی راہ پر لے آئے ہیں۔اسحق ڈار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا اور اب بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 14 ماہ میں پاکستان نے غیرمعمولی معاشی چیلنجوں کا سامنا کیا لیکن میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ہم سب اللہ کے بھروسے اور خلوص نیت کے ساتھ اس ملک کی بہتری کے لیے کاوش کریں تو یہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام جلدی حاصل کرلے گا اور اقوام عالم میں اپنا نام روشن کرے گا۔