لاہور(این این آئی)وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ جناح ہاؤس پر حملہ بہت دلخراش واقعہ ہے بلکہ سانحہ عظیم ہے،جناح ہاؤس میں جو آگ لگی ہے وہ پیٹرول یا ماچس سے نہیں لگی بلکہ کیمیکل سے لگائی گئی ہے،جو پانچ گنا بڑے دشمن کو سینے پر روک کر کھڑے ہو ں ان کے لئے مظاہرین کو روکنا کوئی مسئلہ ہوگا؟،
جس طرح منصوبہ بندی سے ڈیزائن کر کے کیا گیا یہ اتنا سادہ نہیں ہے، جی ایچ کیو اورکور کمانڈر ہاؤس پر دھاوا بولنا سیاست نہیں یہ دہشتگردوں کا کام ہے،آپ سیاسی غلاف پہن کر وہ کام کریں جو دہشتگرد کرتے ہیں اور آپ کو ایمنسٹی مل جائے کہ آپ نے سیاسی پارٹی کا غلاف اوڑاھا ہو اہے، کوئی نیا قانون نہیں بنے گا پرانا قانون ہی ہے، ملٹری ایکٹ آج نہیں بنایہ 1952میں بنا،پی ٹی آئی پر پابندی والی بات میرے علم میں نہیں،
انتخابات کی تاریخ پر اختلاف تھا لیکن وہ بھی تقریباًطے کر لیا گیا تھا، پی ٹی آئی کی ٹیم واپس گئی لیکن ان کی قیادت نے کہا کہ مذاکرات کو بند کرو،آپ غنڈہ گردی کریں کہ ہم دبا لیں گے لیکن ناکام ہو جائیں تو کہیں آئیں مذاکرات کرتے ہیں،آپ نے کمیٹی بنا دی ہے وہ کس سے مذاکرات کرے گی،ان سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گا، آج مذاکرات کا کوئی ماحول نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سابق اراکین اسمبلی خواجہ سلمان رفیق، یاسین سوہل، میاں نصیر اور کنٹونمنٹ بورڈ کے بلدیاتی نمائندوں کے ہمراہ جناح ہاؤس/کور کمانڈر ہاؤس کا دورہ کرنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جناح ہاؤس کی کئی حوالوں سے تاریخی اہمیت ہے، اس کا تعلق بابائے قوم کے ساتھ ہے، ان کی بہت ساری چیزیں یہاں محفوظ کی گئی تھیں، ان میں ان کا سونے کا کمرہ، لائٹنگ ٹیبل، ہینڈ نوٹس، ان کی اچکن، پیانو اور مہمانہ خانے کو محفوظ کیا گیا تھا لیکن ظالموں نے سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیا اور کوئی شرم نہیں کی گئی،یہ لوگ بابائے قوم کی میراث کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں،ایسا نہیں تھا کہ صرف کارکنان تھے ان کے سینئر لوگ بھی یہاں موجود تھے، ان کے ٹکٹ ہولڈر یہاں زکھڑے تھے،یہ قائد اعظم کا گھر رہا ہے، یہاں کور کمانڈر ہاؤس ہے اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس کے تقدس کو اس برے طریقے سے راکھ کا ڈھیر بنایا گیا ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
کور کمانڈر ہمارے سرحدی محافظوں کے سب سے بڑے افسر کی آفیشل رہائشگاہ ہے ، ہم سرحدی شہر میں رہتے ہیں اور لاہور والوں کو اس کا تجربہ ہے جو بارڈر کے اوپر جنگوں کا مزہ چکھ چکے ہیں، جو فوجی کئی سو کلو میٹر تک سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اس کے سربراہ کے گھر کو تباہ کر دیاگیا۔ میں نے وہ ویڈیو بھی دیکھی ہے جس میں شر پسند کور کمانڈر، ان کے بچے اور اہلیہ کے ساتھ بد تمیزی کر رہے ہیں،یہ کس طرح کے لوگ ہیں،ہم نے ساری زندگی سیاسی جدوجہد کی ہے،کئی بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلاف ہوا لیکن ہمیں کبھی خیال نہیں آیا کہ ہم نے فوجی تنصیبات کے سامنے جا کر احتجاج کرنا ہے ان کے اندر گھسنے کا تو تصور بھی نہیں کیا۔
ہم مشرف کے دور میں روز احتجاج کرتے تھے لیکن ہم نے کنٹونمنٹ ایریا کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا، اگر کوئی سپاہی یہ کہتا تھاکہ ہم نے یہاں سے نہیں گزرنا تو ہم وہاں سے نہیں گزرتے تھے، ہم نے تو بھگتا ہے انہوں نے تو بھگتا بھی نہیں ہے، ہم نے احتجاج اور محافظ کے درمیان تمیز رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو استعمال کیا گیا ہے،نوجوانوں کو ورغلایا گیا ہے،اس میں ڈاکٹر زانجینئر زہے ان میں کتنے نفرت کے انجکشن لگائے گئے ہیں کتنی نفرت بھری گئی ہے،آپریٹ کون کر رہا ہے، استعمال کون کر رہا ہے سازش کس نے کی،
جناح ہاؤس میں جو آگ لگی ہے وہ پیٹرول سے نہیں لگی گئی،ماچس سے نہیں لگی بلکہ کیمیکل سے لگائی گئی ہے،کس نے کیمیکل لا کر دئیے کس نے منصوبہ بندی کی، ہم نہیں بے گناہ جیلوں میں گئے،ہنستے ہوئے گئے اور جیلیں کاٹیں،اس وقت بھی ا تنی ہی گرمی اور تکلیف تھی،اس وقت نقاب پوش مارشل لاء لگا ہوا تھا، کیا ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کون کیا کر رہا ہے۔مسلح افواج کے جوان سرحدوں پر ہمارے لئے جانیں دیتے ہیں۔ پاک فوج اس وقت دوہری جنگ لڑ رہی ہے، ایک جنگ باڈر پر اور دوسری اندر لڑ رہی ہے، جو حالت جنگ میں ہو اس کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں،جو پانچ گنا بڑے دشمن کو سینے پر روک کر کھڑے ہو ں ان کے لئے مظاہرین کو روکنا کوئی مسئلہ ہوگا، لیکن سوچا گیا ہو گا کسی بے گناہ کی جان نہ چلی جائے کسی گناہگار کی بھی جان نہ چلی جائے لیکن اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اپنی فوج کو شرمسار نہیں کرتے بلکہ مضبوط کرتے ہیں،قوم اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، جو لوگ فوج کو ہدف کرتے ہیں اس سے بڑا بد قسمت اور بد بخت نہیں ہوسکتا،فوج کی تنصیبات وقار کی علامت ہیں، قائد اعظم کی رہائشگاہ کا ایک تقدس ہے،جی ایچ کیو ہماری طاقت کی علامت ہے لیکن آپ اس پر بھی پل پڑے، ائیر فورس کے فائٹر پالٹ ایم ایم عالم کا جہاز اسے جلا دیا،سپرئیر ایجنسی کی تنصیبات پر حملے کئے یہ کہیں تو بیٹھ کر ڈیزائن ہوا ہے، یہ جگہ احتجاج کی نہیں بلکہ احتجاج کی جگہ چیئرنگ کراس ہے، کور کمانڈڑ ہاؤس پر تین اطراف سے حملہ کیا گیا ہے، اس میں کون کون تھے، اسے ڈیزائن کس نے کیا، جو آگ لگا رہے ہیں وہ کس کیلئے کام کر رہے ہیں،انہیں آپریٹ کون کر رہا تھا یہ اتنا سادہ نہیں ہے،یہ مظلومیت کی کہانی نہیں ہے اس لئے ہم اس قبیح فعل کی جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں،
افواج پاکستان کے شہداء کے وارثوں،غازیوں کے ساتھ یکجہتی کے جذبے کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں اور کہیں گے مانیٹر بھی کر رہے ہیں کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے لیکن گنا ہگار بچنا نہیں چاہیے۔ کور کمانڈر ہاؤس پر دھاوا بولنا سیاست نہیں یہ دہشتگردوں کا کام ہے،جی ایچ کیوپر دھاوا بولنا سیاست نہیں یہ دہشتگردوں کا کام ہے، اس سے پہلے یہ کس نے کیے دہشتگروں نے کئے جس سے ریاست مقابلہ کر رہی ہے، آپ سیاسی غلاف پہن کر وہ کام کریں جو دہشتگرد کرتے ہیں اور آپ کو ایمنسٹی مل جائے کہ آپ نے سیاسی پارٹی کا غلاف اوڑاھا ہو اہے، جو صاحب ان شر پسندوں کے لیڈر ہیں ان کے بہت سارے جرائم ہیں، ان کا سب سے بڑا جرم نوجوا ن نسل کے دماغوں کوآلودہ کرنا ہے، ان میں زہر بھر نا۔ لیڈر شپ کا کام تو ہے کہ وہ نوجوان نسل کو مستقبل کا راستہ دکھائے ان کو ٹیکنالوجی کی بات سمجھائے شفافیت کی بات سمجھائے، یہ نہیں کہ تم اپنی دفاعی تنصیبات پر پل پڑو۔
اس ملک میں نواز شریف اور ان کی بیٹی سزا کاٹنے کے لئے خود وطن واپس آئے، یہاں لوگ پھانسیوں پر جھول گئے اپنی جانیں دی ہیں،یہ کیا طریقہ کیا ہے، اس کا کیا جواب ہے، انہیں پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے، ساری لیڈر شپ کو سر عام عوام میں آکر ندامت کا اظہار اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے، اپنی غلطی کو تسلیم کرنا چاہیے ،افواج پاکستان سے معافی مانگنی چاہیے، یہ سیاست نہیں احتجاج نہیں ہے یہ حملہ ہے دہشتگردی ہے تحریب کاری ہے شر پسندی ہے، سیاست کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے مشکل ادوار دیکھے ہیں لیکن انہوں نے پر امن جدوجہد کی ہے،مارشل لاؤں کے خلاف لڑے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں سوچا، انہوں نے وہ کیا ہے جو بھارت نہیں کر سکا وہ کام آپ نے کردیا، یہ تو ٹی ٹی پی کامیابی سے نہیں کر سکے وہ سیاست کی آڑ میں آپ نے کر دکھایا ہے، اسے قبول اور تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے اس کو صرف مسترد کیا جا سکتا ہے اس کی مذمت کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی والی بات میرے علم میں نہیں ہے۔پوری قوم کو پتہ ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور میں اس میں شامل تھا،بہت سے دوستوں کے اختلاف کے باوجود ہم نے پیشرفت کی کہ بات چیت کرنی چاہیے۔ مذاکرات کا کوئی ماحول اور ایجنڈا ہوتا ہے جب وقت تھا ہم نے بات کی ان کی ٹیم سے بات طے ہو گئی تھی کہ پورے ملک میں ایک وقت میں انتخابات ہونے چاہئیں، انتخابات شفاف ہوں،تاریخ پر اختلاف تھا لیکن وہ بھی تقریباًطے کر لیا گیا تھا، ان کی ٹیم واپس گئی لیکن ان کی قیادت نے کہا کہ مذاکرات کو بند کرو، اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو ان کے جو لوگ مذاکراتی ٹیم میں بیٹھے وہ آج بھی موجود ہیں ان سے میرا نام لے کر پوچھیں میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں،ہم نے تو گالیاں کھا کر مذاکرات کا ماحول پیدا کیا لیکن آپ نے انہیں ناکام بنا دیا۔
لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ جو ملک کے وقار کی علامتیں ہیں ان پر حملے کریں دفاعی تنصیبات کوہدف بنائیں غنڈہ گردی کریں کہ ہم دبا لیں گے لیکن ناکام ہو جائیں تو کہیں آئیں مذاکرات کرتے ہیں،آپ نے کمیٹی بنا دی ہے وہ کس سے مذاکرات کرے گی،ان سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گا، آپ سیاسی جماعتوں کو چور کہتے تھے غدار کہتے تھے،آپ نے جو کام کیا ہے یہ غداروں والا کام ہے، آج مذاکرات کا کوئی ماحول نہیں ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ملزمان کی نشاندہی ہو گئی ہے،ان کی نیٹ ورکنگ موجود ہے، جو جو اندر آگ لگا رہے تھے جو کالز کر رہے تھے ان کا ڈیٹا موجود ہے ثبوت موجود ہے، وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، باہر جو لوگ تھے وہ رنگے ہاتھوں سپاٹ ہوئے ہیں وہ پکڑے گئے ہیں اب کس بات کی انکوائری کرانی ہے ان کے اپنے لوگ کہہ رہے ہیں ہم اندر اور باہر موجود تھے۔
کوئی نیا قانون نہیں بنے گا پرانا قانون ہی ہے، ملٹری ایکٹ آج نہیں بنایہ 1952میں بنا، اس میں کچھ تبدیلیاں ہوئیں اور وہ بھی 26سال سے ہے، کوئی آئین و قانون سے انحراف نہیں کرے گا،اپیل کی تین جگہ پر گنجائش ہے جبکہ باقی قانون میں جگہ دو ہوتی ہیں،ملٹری کورٹ جو فیصلہ دے گی اس کے بعد اپیل کے لئے آرمی چیف اتھارٹی ہے، اس کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ ہے، کوئی نیا قانون نہیں بن رہا، جو لوگ براہ راست فوجی تنصیبات پر حملوں آگ لگانے میں ملوث ہیں ان کے لئے قانون میں جو لکھا ہے وہ ہوگا،جو بے گناہ ہیں وہ قانون کی عدالت سے چھوٹ جائے گا لیکن کسی کو فری کر دیا جائے کہ کوئی کچھ نہیں کہے گا ایسا نہیں ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں بات چیت والا آدمی ہوں، میں چیزیں جوڑنے کی بات کرتا ہوں لیکن بات چیت کا ایک ماحول ہوتا ہے، جب ہم کہہ رہے تھے تو یہ کہہ رہے تھے کہ بات چیت نہیں کریں گے، ہمارا مذاق اڑاتے تھے،ہم نے انہیں اس وقت بھی کہا تھا اگر اپ بات چیت نہیں کریں گے تو منزل کھو دیں گے، پھر الیکشن بھی نظر نہ آئیں، معلو م نہیں یہ اس وقت کس ہواؤں میں تھیں، ہم اس وقت بھی نقاب منہ پر ڈال کر بات نہیں کر رہے تھے، انہوں نے نوجوانوں کو زہر کے اتنے انجکشن لگائے ہوئے ہیں کہ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں سب کچھ الٹا دو ں گا، لیکن اس طرح الٹایا نہیں جا سکتا،ریاست کو آگے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن آئین میں دی گئی مدت کے مطابق ہوں گے، ہم آئینی مدت سے ایک دن بھی آگے نہیں جائیں گے، ہم جمہوری لوگ ہیں کیا ہم کوئی پہلی بار الیکشن لڑنے لگے ہیں۔