کراچی(این این آئی)سپریم کورٹ نے ایڈمنسٹریٹرکراچی مرتضی وہاب کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کے عہدے کو سیاست سے دور رکھنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گٹرباغیچہ کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت سے تلخ کلامی اور برہمی کے اظہار پرسپریم کورٹ نے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کوعہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا تاہم ان کی
جانب سے غیرمشروط معافی مانگے پر سپریم کورٹ نے مرتضی وہاب کو سیاسی تعلق اور دبا سے بالاتر ہوکر ذمہ داری ادا کرنے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے مرتضی وہاب کو فوری طور پر کمرہ عدالت سے باہر جانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مرتضی وہاب ایڈمنسٹریٹر کراچی کے اہل نہیں۔ وزیراعلی سندھ کو فوری طور پر مرتضی وہاب کی جگہ دوسرا ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کا حکم بھی دیا۔پیرکوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد اور قاضی محمد امین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق مختلف کیسز پر سماعت کی۔اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، کمشنر کراچی اقبال میمن اور سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب بھی عدالت میں پیش ہوئے جنہیں سپریم کورٹ نے طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔گٹر باغیچہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے یہ ریاست کی زمینیں ہیں آپ کی ذاتی ملکیت نہیں، ساری زمینیں واپس کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ ہم نہیں لیں گے تو کوئی اور آکر لے گا، آپ زمینیں واپس کریں گے۔مرتضی وہاب نے بینچ سے تلخ کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیا چلے جائیں، حکومت چھوڑ دیں؟ اوپن کورٹ میں حکومت کے خلاف بڑی بڑی آبزرویشنز پاس کردی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے مرتضی وہاب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر، چپ کریں، کیا بات کر رہے ہیں، سیاست نہیں کریں یہاں، جائیں یہاں سے نکل جائیں، ابھی آپ کو فارغ کر دیتے ہیں۔انہوں نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایڈمنسٹریٹر ہیں یا سیاسی رہنما؟ ایڈمنسٹریٹر کو شہریوں کی خدمت کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ غیر جانبداری سے کام کرے، ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سیاست کے لیے نہیں ہوتا۔انہوں نے کہاکہ بادی النظر میں ایڈمنسٹریٹر اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے، ان کا رویہ سیاسی رہنمائوں کا ہے شہریوں کی سروس کا نہیں۔سپریم کورٹ نے سخت الفاظ استعمال کرنے پر مرتضی وہاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو مرتضی وہاب کو فوری عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا۔عدالت نے وزیر اعلی سندھ کو غیر جانبدار اور اہل شخص کو ایڈمنسٹریٹر لگانے کا حکم بھی دیا۔چیف جسٹس نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جائیں باغ ابن قاسم، ہل پارک کو اپنے نام پر کرا لیں، فیریئر پارک کو بھی لے لیں، جتنے پارکس ہیں کراچی میں سب ختم کردیں اور رہے سہے پارک بھی اپنی افسران کو بانٹ دیں۔انہوں نے کہا کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ کہ جن کا کام پارک بسانا ہے وہی اپنے گھر لے کر چلے جائیں، کیا کراچی آپ کی ذاتی ملکیت ہے؟
جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیئے کہ یہ تمام آپ کے پاس امانتیں ہیں، ریاست یہ سب زمین واپس لے گی، ہمارے ذریعے نہیں تو کسی اور کے ذریعے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کس نے سوچا کہ رفاعی پلاٹس پر تعمیرات ہو سکتی ہیں، تاقیامت بھی رفاعی پلاٹ رفاعی ہی رہیں گے، وقت آگیا ہے کہ کے ایم سی کی ساری سوسائٹیز ختم کر دی جائیں، کے ایم سی والوں نے سوچا کہ سب بیچو مرضی سے، رفاعی پلاٹس بیچ کر خوب مال بنایا گیا۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہاکہ ایک چھوٹے
دفتر میں بیٹھا افسر وائس رائے بن جاتا ہے، یہی ہمارا المیہ ہے۔چیف جسٹس نے مرتضی وہاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تمام پارکس بحال کرنا ہوں گے۔کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ 168 ایکٹر اراضی میں سے 50 ایکٹر پر قبضہ ہے۔مرتضی وہاب نے کہا کہ اس شہر کی مشکلات کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارکس بحال کرنے کے لیے آپ کو ہمارے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں، سیوریج ٹریٹمنٹ، انڈسٹری اور قبرستان بن چکا، یہ ریاست کے اثاثے حکمرانوں کے پاس امانت ہوتی ہے
۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے مرتضی وہاب کے حوالے سے حکم واپس لینے کی استدعا کی۔انہوں نے کہا کہ مرتضی وہاب نوجوان ہیں، معافی بھی مانگ چکے ہیں، ان میں صلاحیتیں ہیں کام کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سیاسی ایجنڈا لے کر آتے ہیں، لوگوں کے سامنے کیا کرتے ہوں گے، مائی باپ بنے ہوئے ہوں گے، یہ ذہنی رویہ کرتا ہے، تاہم تحریری درخواست دی جائے ہم دیکھتے ہیں۔سماجی رہنما امبر علی بھائی نے کہا کہ مرتضی وہاب مناسب آدمی ہیں، انہیں ایک اور
موقع دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کا کام شہر کی خدمت کرنا ہوتا ہے، ایڈمنسٹریٹر کا کام سیاست سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمات کرنا ہے۔مرتضی وہاب نے عدالت سے اپنے رویے پر غیر مشروط معافی مانگی جسے بینچ نے قبول کرنے سے انکار کردیا تاہم ان کی دوسری بار معافی قبول کرلی گئی اور سپریم کورٹ نے ان سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔سپریم کورٹ نے ایڈمنسٹریٹر کے عہدے کو سیاست سے دور رکھنے کا حکم دیتے ہوئے مرتضی وہاب کو سیاسی تعلق سے بالاتر ہو کر
ذمہ داری ادا کرنے کی ہدایت کی۔گٹر باغیچہ الاٹی نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ مجھے وکیل کرنے کی مہلت دی جائے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کو یہ گٹر باغیچہ کی زمین الاٹ نہیں ہوسکتی ،اس پر الاٹی نے درخواست کی کہ ہمیں اس کا کوئی متبادل دیا جائے، سندھ حکومت کو حکم دے دیں۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ شہر میں 10 روپے مربع گز کہاں زمین مل رہی ہے، الاٹی نے عدالت سے کہا کہ ہمارے بچوں پر رحم کریں، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمارا کسی سے عناد نہیں،
ہم آپ کے جج ہیں آپ کی عدالت ہے، الاٹی گٹر باغیچہ نے کہاکہ ہمارے پاس چھت نہیں ہے ہم اپنے بچوں کو کہاں رکھیں۔عدالت نے گٹر باغیچہ سے متعلق مزید سماعت آج(منگل) تک ملتوی کردی۔۔اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے عہدے سے برطرفی کے حکم کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے مرتضی وہاب نے کہا کہ چیف جسٹس کا حکم ہے کہ عہدے سے ہٹایا جائے ،اس کو تسلیم کرتے ہیں۔انھوں نے عدالتی کارروائی سے متعلق بتایا کہ گٹرباغیچہ کیس کی سماعت
میں نکات کے ساتھ بات کررہا تھا اور دلائل میں احترام تھا۔ کسی کے خلاف فیصلہ کرنے سے پہلے اس شخص کو بھی سن لینا چاہئے۔مرتضی وہاب نے کہا کہ عدالت نے جب تمام چیزیں دیکھیں تو ان کو بھی اندازہ ہورہا ہے کہ گٹرباغیچہ کی زمین پارک کے لیے قرار دینے کی کوئی سرکاری دستاویز نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ عدالتوں کے لیے ہمیشہ احترام کیا ہے اور اس عدالت کو اپنا سمجھتے ہیں۔ کبھی غلط چیز کرنے پر یقین نہیں کرتا، شہر کے لیے جو کرسکتا ہوں، کروں گا۔مرتضی وہاب نے کہا کہ شہر کی خدمت کرنا اعزاز ہوگا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ اگر جارحانہ رویہ ہوتا ہے تو معذرت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔