اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) قطر کے ساتھ حکومت سے حکومت کی سطح پر دُوسرا ایل این جی معاہدہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی نظروں میں آ گیا ہے۔روزنامہ جنگ میں خالدمصطفی کی خبر کے مطابق بیورو نے 20اپریل کو پیٹرولیم ڈویژن کے نام خط میں تمام تر تفصیلات مانگ لی ہیں۔ جس میں کاغذی کارروائی اور قطر سے نئے ایل این جی معاہدے کی تفصیلات اور پٹرول بحران پر
ایف آئی اے کمیشن کی رپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔نیب اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ آیا 2015ء میں یا 2021ء میں کیا گیا معاہدہ بہتر ہے۔ اگر دونوں معاہدے ناقص ثابت ہوئے تو تب غلط کاری کے ارتکاب پر ضروری کارروائی کی جائے گی۔فروری 2021ء میں جب پاکستان نے قطر سے معاہدہ کیا اس وقت ندیم بابر پیٹرولیم پر وزیراعظم کے خصوصی معاون تھے۔ جنہوں نے معاہدہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اپنے ڈھائی سال کے عرصے میں ندیم بابر نے قطر حکام کے ساتھ 10 سال کا معاہدہ طے کرایا تھا۔ تاہم اب وہ حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔وزیراعظم کی ہدایت پر وہ سبکدوش ہوئے۔ اسد عمر کی سربراہی میں چار وزراء نے انہیں فارغ کرنے کے لئے دبائو ڈالا تھا۔ رابطہ کرنے پر ندیم بابر نے کہا وہ اب حکومت کا حصہ نہیں ہیں اور تازہ پیش رفت کے حوالے سے کچھ نہیں جانتے۔ تاہم رابطہ کرنے پر پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان نے نیب کی جانب سے لکھے گئے مذکورہ خط کی تصدیق کی اور بتایا کہ ایف آئی اے کمیشن کی رپورٹ بھی مانگی گئی ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب کے فعال ہونے پر پیٹرولیم ڈویژن اور پی ایس او کے اعلیٰ افسران دبائو
میں آ گئے ہیں۔سیکرٹری پیٹرولیم اور ایم ڈی پی ایس او جو مذاکرات میں شریک رہے انہوں نے معاہدے سے قبل نیب ہیڈکوارٹر جا کر ایل این جی معاہدے سے متعلق آگاہ کیا۔ پہلا معاہدہ 2015ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور دُوسرا معاہدہ فروری 2021ء میں پی ٹی آئی حکومت کے تحت ہوا۔دُوسرے معاہدے کو بہتر سمجھا جارہا ہے۔ استفسار پر وزیراعظم کے سبکدوش معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 15 سال کے لئے 12 … سینٹ پر 900ایل این جی کارگوز کے لئے مذاکرات ہوئے۔گزشتہ ن لیگ حکومت کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ 13.37 فیصد برینٹ کی بنیاد پر معاہدہ بہتر تھا کیونکہ اس وقت متعدد ممالک نے قطر سے خریداری کے بہتر معاہدے کئے تھے۔