اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )گزشتہ روزقومی اسمبلی کے اجلاس میں دو روز کے وقفے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی بھی سپیکر اسد قیصر کو ایوان میں ہونے والے اپوزیشن کے احتجاج کے باعث اچانک ہی ختم کرنا پڑی،تاہم یہ احتجاج روایتی ہرگز نہیں تھا بلکہ گزشتہ دنوں ملک بھر میں ختم نبوت کے معاملے پر آپۖ کے عقیدت مندوں اور وارفتگان
پر شقی القلبی کے واقعات کے خلاف تھا اور امر واقعہ ہے کہ حکومتی نشستوں پر اجلاس کے دوران تمام وقت خاموشی چھائی رہی اور متعدد حکومتی ارکان کے چہرے غمازی کر رہے تھے کہ وہ حکومتی نشستوں پر تو ضرور بیٹھے ہیںلیکن انکے جذبات اور دل کی دھڑکنیں اپوزیشن کی نشستوں پر ہونے والی تقاریر کے ساتھ ہیں، بیشتر ارکان کے چہروں پر افسردگی اور ندامت بھی دیکھی جاسکتی تھی جو فطری بات تھی حکومت سے وابستگی رکھنے والے بعض ارکان جو ایوان میں خاموش تھے تاہم وزیر مملکت علی محمد خان نے اس مشکل صورتحال میں حکومت کا دفاع کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم ان کا بیانیہ حکومت کے موقف سے من وعن مماثلت نہیں رکھتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ علی محمد اپنی حکومتی ذمہ داریوں سے مستعفی ہوگئے ہیں اور اس افواہ نے اتنی تیزی سے گردش کی کہ انہیں باضابطہ طور پر انہیں اس افواہ کی تردید کرنی پڑی، روزنامہ جنگ میں فاروق اقدس کی
شائع خبر کے مطابق حکومتی ارکان کو اپنے دلی جذبات کا اظہار اور پارٹی ڈسپلن کی مجبوریوں پر کف افسوس ملتے بھی دیکھا گیا جن کے تیور دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کسی وقت بھی ایوان میں پارٹی ڈسپلن سے بغاوت کرتے ہوئے اور اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر
ہوکر ناموس رسالت ۖکے حوالے سے ایک عاشق رسول کی حیثیت سے ایوان میں پیش ہوسکتے ہیں، ایوان میں سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے اپنی تقریر میں جو نکات اٹھائے اور جس انداز میں اپنا اور اپنی پارٹی کا موقف بیان کیا اس پر یہ تبصرہ خاصا موزوں تھا کہ۔ پیپلز پارٹی والوں کی کارکردگی اپوزیشن میں زیادہ بہتر ہوئی ہے ۔