اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بے اختیار بنانے میں عثمان بزدار ملوث نکلے، فیصلے لینے میں کابینہ کو شامل نہیں کیا گیا،نوٹیفکیشنز کے اجرا میں انسانی، علمی یا تکنیکی غلطی ممکن نہیں۔ روزنامہ جنگ میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا دعویٰ کہ اختیارات اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی کسی حد تک
خود مختار حیثیت میں کمی سے متعلق نوٹیفکیشنز، جو اب منسوخ ہوچکے، کے اجرا میں کسی انسانی غلطی اور علمی غلطی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا سرکاری ریکارڈ کے برعکس ہے۔ صوبائی کابینہ کی جانب سے بڑی تعداد میں ترامیم کی منظوری کے بعدپنجاب رولز آف بزنس 2011 کو تبدیل کردیا گیا تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان پر بحث کی گئی۔ تحریری طور پر اس طرح کی اجازت کے بغیر قواعد میں ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہر بار پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے قواعد میں ترامیم کا نوٹیفکیشن جاری کیا یا صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب اور باضابطہ سمری حاصل کرنے کے بعد ان کو ختم کردیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ گورنر نے اس سے انکار کیا ہے کہ ان کے دفتر نے 29 مارچ کو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس نے ایس پی ایس کو کم کردیا تھا۔ کابینہ کی جانب سے اس اقدام اور رولز آف بزنس میں بڑے پیمانے پر ترامیم کی منظوری کے بعد ایس پی ایس کے قیام کا 11 ستمبر 2020 کا اصل
نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔اس کے بعد اس حکم کو 29 اور 30 مارچ کے نوٹیفیکیشن کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا تھا جب کابینہ نے ان کی منظوری دی تھی۔ تاہم ان دونوں آرڈرز کو منسوخ کرنے والا یکم اپریل کا نوٹیفکیشن پنجاب کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے مشہور فیصلے کے تحت صوبائی حکومت کا مطلب وزیر اعلیٰ اور کابینہ ہے اور ہر فیصلہ ان کے ذریعہ اجتماعی طور پر لینا ہوتا ہے۔ نہ ہی وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر اعلی آزادانہ طور پر ایسا کر سکتے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ گواہ ہے کہ پنجاب کابینہ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا
جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یکم اپریل کے آرڈر کے ذریعہ 29 اور 30 مارچ کے نوٹیفیکیشنز کو ختم کردینا چاہئے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی اور پنجاب کے وزرا کی جانب سے ایس پی ایس کے اختیارات اور حیثیت کو کم کرنے پر ہم آواز ہونے کے بعد غیر مہذب عجلت بازی
میں انہیں منسوخ کردیا گیا۔ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ، جس نے ان تمام نوٹیفکیشنز کو جاری کیا ، وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کے براہ راست کنٹرول میں ہے جو اس کے رکھوالے ہیں۔ کسی وزیر کو انچارج نہیں بنایا گیا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی انسانی غلطی اور علمی
، تکنیکی غلطی کے نتیجے میں ان کا اجرا ہوا۔ افراتفری کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی وزیر خزانہ ہاشم جوان بخت کی سربراہی میں ایک وزارتی کمیٹی کو ایس پی ایس کے لئے سات دن کے اندر نئے قواعد وضع کرنے
کی ہدایت کی گئی ہے کیونکہ حکومت جنوبی پنجاب کو بہترین اور موثر انتظامیہ دینے کے لئے پرعزم ہے۔ وہ ایس پی ایس میں تمام صوبائی محکموں کو موجودہ 16 محکموں کی تعداد بڑھانے سے متعلق اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے
تو ایس پی ایس کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کی جانب سے شروع ہونے والے جھگڑے سے خود کو دور رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو بظاہر پنجاب میں صوبہ بنانے کے مطالبے پر عمل کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اس معاملے میں زیادہ پرجوش نہیں رہی اور اسے بہت کم توجہ دینا چاہتی ہے۔ اس کا کوئی لیڈر اس کے بارے میں بات نہیں کررہا ۔