قوانین تبدیل کر کے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ بھرتی کر کے انہیں دوسری پنشن کا بھی اہل بنا یا گیا، انصار عباسی چونکا دینے والے انکشافات سامنے لے آئے

7  فروری‬‮  2021

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)برطانوی دورِ حکومت سے مروجہ سمجھے جانے والے مالیاتی اصولوں کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد بھرتی کیے جانے والے ملازمین کو صرف تفریقی ادائیگی (Pay Differential) کی جاتی تھی لیکن جنرل ضیا کی آمریت کے دوران ان اصولوں میں

تبدیلی کی گئی تاکہ دوبارہ بھرتی ہونے والے ملازمین کو عہدے کی مکمل تنخواہ دی جا سکے اور ساتھ ہی انہیں پنشن بھی مل سکے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق سول بیوروکریسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سویلین عہدوں پر بھرتی کیے جانے والے ریٹائرڈ فوجیوں کے معاملے میں بھی دیکھا جائے تو اگر وہ دس سال تک سویلین عہدے پر کام کرتے تھے تو انہیں ضیا کے دور سے دوسری پنشن بھی ادا کی جانے لگی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی جانے والی آئینی درخواست میں گلگت بلتستان کی سپریم اپیلیٹ کورٹ کے چیف جج اور دو دیگر ججوں کو بھاری پنشن دینے کے دلچسپ معاملے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان ججوں کو صرف تین سال کیلئے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، جنہوں نے گلگت بلتستان کی سپریم کورٹ کے چیف جج کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے، دو پنشنوں کے حقدار قرار پائے۔ کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کی سپریم کورٹ کے

چیف جج کی حیثیت سے انہوں نے حکم جاری کیا تھا کہ گلگت بلتستان کی عدالت کے ججز تین سال کی ملازمت کی صورت میں پنشن کے حقدار ہوں گے۔ برطانوی دور کے مالی قواعد کے مطابق، جو بھارت میں اب بھی مروجہ ہیں، پنشن صرف اسی صورت دی جاتی تھی جب

ملازمت کو تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہو۔ عمومی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر دوبارہ بھرتی کیا جائے گا تو ایسے ملازمین کو اس عہدے کی کم از کم تنخواہ بصورت ڈیفرنشل پے دی جاتی تھی اور اس میں پنشن شامل نہیں ہوتی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 1970 تک ہائی کورٹ کے ججز کو کم از کم

سات سال کی سروس مکمل کرنے کے بعد پنشن دی جاتی تھی۔1970 میں، جنرل یحی نے یہ عرصہ کم کرکے پانچ سال کردیا اور اسکی سفارش چیف جسٹس پاکستان شہاب کمیشن رپورٹ 1960 میں کی گئی تھی جس میں تین ماہ کی کمی کو معاف کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔مئی

2008 میں پی سی او سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ برقرار رکھا۔ نتیجتاً 70 ریٹائرڈ جج صاحبان (بشمول جنہیں مارچ 1996 میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی طور پر بھرتی ہونے والے ججز قرار دیا تھا)، جن کی سروس 13 ماہ سے 4 سال 8 ماہ کے درمیان تھی، کو 3.85 ارب

روپے بقایہ جات کی مد میں ادا کیے اور ساتھ ہی سالانہ بنیادوں پر ہونے والے اضافے کی مد میں مزید 38 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔اپریل 2013 میں اس فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیل دائر کی گئی تھی جسے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کیلئے منظور کیا گیا تھا تاہم 2-3 کی اکثریت

سے یہ فیصلہ دیا گیا کہ اہلیت نہ رکھنے والے ریٹائرڈ ججز چار ارب روپے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں (جو وہ پہلے ہی پنشن کی مد میں وصول کر چکے تھے) جبکہ بینچ کے دو سینئر ججوں نے اس بات کو غیر اسلامی اور خلاف ضمیر قرار دیا۔کچھ سے کہا گیا کہ وہ صدر مملکت سے

ایگزیکٹو ریلیف طلب کریں جو انہیں ملا بھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگست 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے سویلین سرکاری ملازمین کیلئے پنشن کی سروس کی لازمی حد 30 سال سے کم کرکے 25 سال کر دی۔بعد میں ضیا نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھرتی ہونے کی صورت میں عہدے کی

مکمل تنخواہ دینے کی منظوری دی اور ساتھ ہی سابق فوجیوں کو سویلین عہدوں پر بھرتی ہونے کی صورت میں اگر وہ دس سال اس عہدے پر ملازمت کریں تو انہیں دوسری پنشن کی بھی اجازت دی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی)، جو عموما ریٹائرڈ

آئی اے ایس افسر ہوتا ہے، کو بھی تنخواہ کی مد میں تفریقی ادائیگی کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنشنر کی موت کی صورت میں اس کی بیوی اور اس کے بعد (یعنی بیوی کی موت کی صورت میں) غیر شادی شدہ بیٹی کو پنشن ملتی ہے۔ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری کا کہنا ہے کہ ان کے

روبرو ایک مرتبہ 80 سالہ پنشنر کا دلچسپ معاملہ پیش کیا گیا۔اس پنشنر کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک کی عمر 75 سال جبکہ دوسری کی عمر 20 سال کے قریب تھی۔ ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ جب حساب لگایا گیا کہ اگر دوسری بیوی مزید 40 سال تک بھی اگر زندہ

رہتی تو اس کا مطلب تھا کہ سرکاری خزانے سے اسے 60 برس تک پنشن کی ادائیگی ہوتی رہتی۔سابق سیکریٹری نے مزید بتایا کہ ایک مرتبہ انہیں 35 سالہ لیڈی ڈاکٹر کا فون آیا جس نے بتایا کہ اس کے بھائی اسے شادی کرنے نہیں دیتے کیونکہ والد کے انتقال کے بعد اسے پنشن کی مد میں

ماہانہ 80 ہزار روپے ملتے ہیں۔ریٹائرڈ افراد، چاہے وہ ججز ہوں، جرنیل یا پھر سویلین بیوروکریٹس، دوبارہ بھرتی ہو کر بڑی تعداد میں سرکاری اداروں میں کام کر رہے ہیں حالانکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھرتی ہونے کے حوالے سے بیوروکریسی کے قوانین بہت سخت ہیں۔قانون

اور پالیسی کے مطابق، سویلین بیوروکریسی میں انتہائی غیر معمولی صورتحال میں صرف محدود عرصہ کیلئے ہی عہدے پر توسیع دی جاتی ہے وہ بھی اس صورت میں جب ریٹائرڈ / ریٹائر ہونے والے افسر کا متبادل دستیاب نہ ہو۔سول سرونٹس ایکٹ 1973 کا سیکشن 14 اسی معاملے

کے متعلق ہے اور اس میں لکھا ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو وفاقی حکومت میں اس وقت تک دوبارہ بھرتی نہیں کیا جائے گا جب تک اس کا دوبارہ بھرتی ہونا عوامی مفاد میں نہ ہو اور دوبارہ بھرتی کرنے کی اجازت بھرتی کرنے والے افسر سے ایک سطح بالا ہو۔شرط یہ ہے کہ اگر بھرتی کرنے

والا عہدیدار صدر مملکت ہیں تو ایسی صورت میں دوبارہ بھرتی کیلئے صدر مملکت کی اجازت لازمی ہوگی۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے 11 نومبر 1996 کو جاری کیے جانے والے آرڈر کے مطابق حکومت کی موجودہ پالیسی کے مطابق، ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمین

کی دوبارہ بھرتی کی حوصلہ ا فزائی نہیں کی جاتی ماسوائے ایسے معاملات میں جہاں متعلقہ سرکاری ملازم کے پاس کوئی ایسی مخصوص مہارت یا ہنر ہو جس کا کوئی متبادل نہ ہو۔ دوم) وزیراعظم نے رضاکارانہ بنیادوں پر ریٹائر ہونے والے ملازمین کی دوبارہ بھرتی کیے جانے کی

درخواستیں مسترد کر دی ہیں اور وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ ایسی تجاویز نہ بھیجیں۔ایسٹا کوڈ میں بھی لکھا ہے کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وزارتیں اور ڈویژنوں نے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنے کی تجویزیں بھیجنا معمول بنا لیا ہے۔یہ بات یاد رکھنا

چاہئے کہ دوبارہ بھرتی ہونے کا عمل غیر معمولی بنیادوں پر ہے نہ کہ کوئی اصول۔ صرف اس صورت میں ایسے افراد کی سفارش کی جائے جن کے متعلق حکومت سمجھے کہ ریٹائر ہونے والا شخص انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ہنر و تجربہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے خصوصا

ایسے شعبہ جات میں جہاں باصلاحیت اور اہلیت کے حامل افراد دستیاب نہیں۔دوم) مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کیلئے موجودہ حکومت نے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ بھرتی کی صورت میں سرکاری ملازمین کیلئے یہ شرائط مقرر کی ہیں: 1) ریٹائر ہونے والے افسر کی اہلیت کے مطابق

کوئی دوسرا متبادل دستیاب نہ ہو۔ 2) افسر شاندار کارکردگی کا حامل اور اپنے شعبہ میں انتہائی با صلاحیت ہو۔ 3) دوبارہ بھرتی کی صورت میں کسی کی ترقی نہ رکے؛ اور 4) مخصوص مدت کیلئے ریٹائر ہونے والے افسر کو دوبارہ بھرتی عوامی مفاد میں کیا جائے۔اس پالیسی کا اطلاق

سرکاری کنٹرول میں آنے والی کارپوریشنز اور دیگر خودمختار اداروں پر بھی ہوگا۔ایسٹا کوڈ کے مطابق، دوبارہ بھرتی کی صورت میں مندرجہ ذیل دستاویزات / معلومات منسلک کی جائیں: 1) تجویز پر سیکریٹری یا پھر متعلقہ وزارت کا انچارج ایڈیشنل سیکریٹری دستخط کرے گا اور یہ

سفارش اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو مذکورہ افسر کی ریٹائرمنٹ سے 6 ماہ قبل کی جائے گی اور اس کیلئے متعلقہ وزیر سے بھی اجازت حاصل کی جائے گی۔ 2) متبادل کی تربیت کیلئے کیے جانے والے اقدامات اگر کوئی کیے گئے ہیں تو؛ 3) فوٹوگراف کے ساتھ اے سی آرز، آئی سی پی چارٹ

اور متعین کردہ پروفارما پر بایو ڈیٹا؛ اور 4) سرٹیفکیٹ کہ مذکورہ افسر طبی بنیادوں پر موزوں ہے۔اگرچہ من پسند افسران کو کسی بھی وقت دوبارہ بھرتی کر لیا جاتا ہے لیکن عمومی طور پر جس ایسٹا کوڈ کو نظرانداز کیا جاتا ہے اس میں لکھا ہے کہ اگر عوامی مفاد میں کسی ریٹائرڈ

ہونے والے افسر کو عہدے میں توسیع دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے توسط سے وزیراعظم کو افسر کی ریٹائرمنٹ یا اس کا کنٹریکٹ ختم ہونے سے 6 ماہ قبل سمری بھیجی جائے تاکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاس اس درخواست پر کارروائی کیلئے مناسب

وقت موجود ہو۔اس میں مزید لکھا ہے کہ کنٹریکٹ یا پھر عہدے میں توسیع کے ذریعے دوبارہ بھرتی کرنے کے عمل کے دوران مندرجہ ذیل معلومات کو بھی دیکھا جائے: 1) اگر کسی ملازم کو عہدے میں توسیع دی گئی ہے یا اسے دوبارہ بھرتی کیا گیا ہے تو اس عرصہ کے دوران اس کی

کارکردگی کیا رہی۔یہ صرف اس صورت میں دیکھا جائے جب اسے عہدے میں یا کنٹریکٹ میں مزید توسیع دی جا رہی ہو۔ 2) سرٹیفکیٹ پیش کیا جائے کہ دوبارہ بھرتی یا کنٹریکٹ میں توسیع کی تجویز کی وجہ سے محکموں میں افسران کی پروموشن میں خلل پیدا نہیں ہوگا۔ 3) افسر کے متبادل

کی تربیت کیلئے کیے جانے والے اقدامات کے متعلق ایک رپورٹ اور ساتھ ہی ان حالات کے حوالے سے رپورٹ جس میں ان حالات کا ذکر کیا جائے جن کے تحت متبادل افسر کی تربیت کیوں نہ ہوسکی۔ کسی بھی صورت میں کسی عہدے پر موثر بہ ماضی بنیادوں پر بھرتی نہیں کی

جائے گی۔24 دسمبر 1978 کو اسٹیبلمشنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کیے جانے والے آفس میمو کے مطابق، وقتا فوقتا اس بات کی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی سرکاری عہدے اور خود مختار اداروں میں بھرتی کیلئے صدر مملکت کی اجازت لازمی ہوگی۔

سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے اور اس کا اطلاق سرکاری کارپوریشنز اور خود مختار اداروں وغیرہ پر بھی ہوتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 5 دسمبر 1990 کو جاری کردہ ایک اور میمو کے مطابق، 12 نومبر 1990 کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ

کیا گیا ہے کہ غیر معمولی حالات کے سوا کسی صورت ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ بھرتی نہیں کی جائے گی اور اس کیلئے وزیراعظم سے اجازت طلب کرنا ہوگی۔دوم) اس فیصلے کا اطلاق تمام خود مختار اداروں / نیم خود مختار اداروں پر بھی ہوگا اور اس فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کیلئے یہ بات ان کے علم میں لائی جائے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…