اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی)قومی اسمبلی اجلاس میں تین ارکان کے مابین سخت تلخ کلامی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور اپوزیشن رکن آغا رفیع اللہ پر گندے اشارے کرنے کا الزام بھی لگ گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کی تقریر کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ سپیکر ڈائس پر پہنچے اور ایجنڈے کی کاپی پھاڑ کر سپیکر کی طرف اچھال دی۔اس موقع پر حکومتی ارکان انور تاج اور محمد اقبال اپوزیشن رکن کے پاس پہنچے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ اسی دوران ان میں سخت تلخ کلامی ہوئی اور گالم گلوچ شروع ہوگئی، اس سے پہلے کہ تینوں گتھم گتھا ہو جاتے دیگر ارکان نے آکر بڑی مشکل سے ان میں بیچ بچا ئوکرایا۔دوسری جانب سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری پر گندے اشارے کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ آج آپ وہ کام کر رہے ہیں جو ہمیں کرنا چاہیے تھا، اس معاملے میں ہم ایک پیج پر ہیں، خاتون وزیر نے ہمارے رکن کو جو اشارہ کیا اس کو لبوں پر نہیں لاسکتا۔الزام کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ انہوں نے کوئی اشارہ نہیں کیا بلکہ اپوزیشن رکن آغا رفیع اللہ نے ہماری
خاتون کو اشارے کیے، یہ غلط بیانی کر رہے ہیں، انہیں معطل کیا جائے۔دریں اثنا وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کیلئے آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ،اپوزیشن نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی۔تفصیلات کے مطابق
قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کیلئے حکومت کی طرف سے وزیر قانون فروغ نسیم نے 26 ویں آئین ترمیم کا بل پیش کیا جس پر اپوزیشن اراکین نے ایوان میں شدید نعرے بازی
کی اور ڈیسک بجا کر احتجاج کیا۔بل پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ سینیٹ میں انتخابات اوپن بیلٹ سے ہونے چاہئیں، آئین میں ترمیم کرنا آئین شکنی ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، ہم آئین میں ترمیم کررہے ہیں الیکشن چوری نہیں کررہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما
احسن اقبال نے کہا کہ ایوان کو چلانے کیلئے ضابطوں کی ضرورت ہے، آج 13 دن سے اجلاس چل رہا ہے اور ان 13 دنوں میں 10 گھنٹے کارروائی چلی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت اگر اپوزیشن کی تنقید برداشت نہیں کرے گی تو اپوزیشن گلیوں اور چوراہوں میں احتجاج کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، مہنگائی روز بڑھ رہی ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ ایک وزیر نے یہاں بیان دیا کہ 250 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں، سرکاری ملازمین احتجاج کر رہے ہیں، اسٹیل مل کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک نہیں دیا جا رہا۔انہوں نے کہا کہ
کسان اس ملک میں رو رہا ہے، کیا حکومت انتظار کر رہی ہے کہ کسان ٹریکٹر لے کر دہلی کی طرح یہاں آجائیں۔حکومت کے آئینی ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کو قائمہ کمیٹی میں 20 منٹ میں پاس کروایا گیا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے،
پیٹرول مہنگا کر دیا گیا، لگتا ہے ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام یونیورسٹیاں شدید مالی خسارے کا شکار ہوچکی ہیں، جہاں تنخواہوں کے پیسے نہیں وہاں کیا تعلیم اور تحقیق ہو گی۔انہوں نے کہا کہ ہسپتال مسلسل بحران کا شکار ہیں، ہماری ایوی ایشن کی صنعت بیٹھ گئی
ہے جبکہ مذکورہ وزیر ایوان کو مس گائیڈ کرتے ہیں، ایوان کو گمراہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر ہوابازی سے کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ وہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، سٹیل ملز ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک بھی نہیں دیا جا رہا۔احسن اقبال نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جانبداری
کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی سال میں مسلم لیگ (ن) کے ایک بھی توجہ دلائو نوٹس کو نہیں لیا گیا، ایوان یکطرفہ نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے 20 ارکان اسمبلی سے پرویز مشرف کی اسمبلی کو پتا لگ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ٹی وی پر ہماری کردار کشی
کرتے ہیں، وزیر اعظم بتائیں کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں شفافیت کہاں چلی گئی تھی، اس وقت ہاؤس ٹریڈنگ وزیر اعظم ہاوس سے ہو رہی تھی، اب اپنے ارکان کا ووٹ نہ دینے کا خوف ہے تو شفافیت یاد آگئی۔انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت والوں کو سینیٹ میں لانا ہے تو سمندر پار
پاکستانیوں کو کہانی سنائی جا رہی ہے، فرینڈز آف عمران خان کیلئے قانون سازی یا آئین سازی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ برما میں آنگ سانگ کی حکومت گئی تو یہاں بھی مانگ تانگ کی حکومت نہیں رہ سکے گی، جتنی دیانت حکومت میں ہے اتنی اپوزیشن میں بھی ہے۔ انہوں نے کہا
کہ 70 ارب کی کمیشن کا الزام لگانے والوں نے ابھی تک کوئی کمیشن نہیں بنایا، مجھ پر الزام دراصل چین پر الزام ہے، میڈیا ٹرائل کے دوران الزام لگا دیا جاتا ہے۔حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ اپنی کرپشن جائز کرنے کے لیے رولز بدل دیے جاتے ہیں، وزیر اعظم
نے اگر کردار کشی جاری رکھی تو ہمیں اس سے زیادہ سنگین طریقے سے سوال اٹھانا آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خود فرشتے اور مخالفین کو شیطان بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اگر ہمیں عزت نہیں ملے گی تو پھر آپ کو اسی زبان میں جواب ملے گا۔اجلاس کے دوران وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب
سے تقریر کے دوران تنقید پر اپوزیشن اراکین نے شدید شور شرابہ کیا جس کے باعث اجلاس بار بار روک کر وقفہ لیا گیا ۔وفاقی وزیر مراد سعید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے اور اسٹیل مل کے حوالے سے بات کی گئی، اگر یہ ادارے دونوں اتنے اچھے تھے تو ان کے دور میں
ان کے وزیر خزانہ یہ بیان نہ دیتے کہ پی آئی اے خریدنے والے کو اسٹیل مل مفت دی جاتی۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستان پوسٹ کی بات کی جبکہ پاکستان پوسٹ میں 62 ارب کا خسارہ یہ چھوڑ کر گئے اور جو نکتہ اٹھایا گیا ہے اس پر میں قرار داد بھی پیش کروں گا جبکہ اس دوران
اپوزیشن مسلسل نعرے بازی کرتی رہی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہاں پروڈکشن آرڈر کا رونا رویا گیا اور کہتے ہیں کہ خواجہ آصف جیل میں ہے تو کیا یہ ایوان خواجہ آصف کی رہائی کے لیے ہے، دوسرے نے قبضہ مافیا کی بات کی، 36 افراد کی فہرست ہے، ملک پر اور ملک کے اثاثوں پر قبضہ
کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ لیڈرز کا حکم آتا ہے تو یہ شور شروع کر دیتے ہیں، میں جس کو سنانا چاہتا ہوں وہ شور کر رہے ہیں لیکن میں عوام کو سناؤں گا۔انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ پر بڑا شور سنا تھا اور اس میں بھی ثابت ہوا کہ ان کے لیڈر نے جس طرح دیگر چیزوں میں ملک لوٹا تھا مزید ان
کے کیسز سامنے آگئے، پارٹی کی اپنی رسیدیں اس لیے جمع نہیں کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے منی لانڈرننگ، چوری، کرپشن اور کک بیکس کے لیے پارٹی کے اکاؤنٹ استعمال کیا۔مراد سعید نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سینیٹ میں جس طرح پیسے کا استعمال کیا جاتا ہے اور اراکین صوبائی
اسمبلیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدتا جاتا ہے ، یہ سلسلہ بند ہو، یہ غلط کام ہے، یہاں اچھے اراکین اسمبلی میرٹ پر ووٹ دینا چاہتے ہیں، ان بھی توہین کرتے ہیں کیونکہ ہر سینیٹ الیکشن کے بعد کہا جاتا ہے کہ اراکین صوبائی اسمبلی اور سینیٹر بک گئے، اس سلسلے کو بند کر دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسی کے لیے قانون سازی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں پر اوپن بیلٹ کریں، سب کے سامنے ووٹ دیا جائے اور چھانگا مانگا کی سیاست کو دفن کیا جائے، یہ اس لیے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیڈرز کرپشن کے پسے ان انتخابات میں استعمال کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ جو ابھی بات کر رہے ہیں وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ استعفیٰ منہ پر ماریں گے، انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اور آج یہاں بیٹھے ہوئے، انہوں نے کہا تھا کہ 31 جنوری کے بعد حکومت چلی جائے گی لیکن آج یہاں آکر اسمبلی میں بیٹھ گئے، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی
حیا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ استعفے دینے کی ان کی ہمت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست میں لوٹ مار کے لیے کرتے ہیں اور اسمبلی میں لوٹ مار کے تحفظ اور اس کو بچانے کے لیے آتے ہیں، اگر اتنی بہادری ہے تو باہر سے واپس آکر مقدمات کا سامنا کرو، باہر بیٹھ کر پاکستان کے
خلاف زہر اگلا جا رہا ہے اور دشمن کے بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ قوم دیکھ لے یہ منظر! انہوں نے 20،20 منٹ کی تقریر جھاڑ کر یہاں ‘جس کو اپنے غلام سمجھتے ہیں، ان کو کھڑا کیا کہ شور مچانا شروع کردے تاکہ ان کے سوالات کا جواب نہ پہنچے، اس ایوان
کو صرف پروڈکشن آرڈر، قبضہ مافیا کے تحفظ، پاناما، براڈ شیٹ اور اس میں آئی چوری کی رقم کو بچانے، جو آئینی ترمیم پاکستان کے حق میں آرہی ہے اس کو بچانے کے لیے استعمال کریں لیکن یہ ایوان اس کیلئے نہیں ہے بلکہ عوام کے ہر مسئلے کے حل کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان ان کی مرضی کے مطابق اس طرح نہیں چل سکتا، یہاں مک مکا نہیں چلے گا، یہ اپنی تقریر کر کے مک مکا کریں گے، اسپیکر کے پاس جائیں گے یا شاہ صاحب کے پاس جائیں گے اور آپس میں بیٹھ جائیں گے تو ایسے نہیں چلے گا، میں یہاں مک مکا کرنے نہیں آیا، یہ تین دن تک شور مچائیں لیکن میں اپنی بات پوری کروں گا۔