اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیب نے 2000 میں براڈ شیٹ کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے تھے اس پر اس وقت کے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل امجد کے دستخط تھے۔ معاہدے میں اثاثہ ریکوری کمپنی کو غیر معمولی مراعات دی گئی تھیں جبکہ معاہدے میں خود معاہدے کو خفیہ
رکھنے کی شق بھی شامل کی گئی تھی۔ روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق معاہدہ پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اسے براڈشیٹ نے تحریر کیا ہے اور نیب چیئرمین کا کردار صرف اس پر دستخط کا تھا۔ سب سے بڑی فاش کوتاہی اس میں یہ شامل کی گئی ہے کہ ریکور کی گئی رقم میں سے بیس فیصد حصہ بطور کمیشن براڈ شیٹ کو دیا جائے گا چاہے ریکوری میں براڈشیٹ کا کردار ہو یا نہ ہو۔ شرط یہ تھی کہ ریکوری ٹارگٹ کیے جانے والے افراد سے کی جائے گی۔ معاہدے کی شق نمبر چار اسی حوالے سے ہے۔ نیب اور براڈشیٹ نے اتفاق کیا تھا کہ براڈ شیٹ یا پھر نیب کی جانب سے کسی بھی شخص سے ریکور کی جانے والی رقم سے دونوں براڈشیٹ اور نیب فائدہ اٹھائیں گے۔ شفافیت کیلئے یہ واضح کیا گیا تھا کہ کسی بھی شک و شبہ سے بچنے کیلئے شق نمبر چار میں جس طرح ریکور کیے جانے والے اثاثہ جات کی بات شامل کی گئی ہے اس کا اطلاق نیب یا پھر کسی بھی رجسٹرڈ شخص یا کمپنی کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے پر بھی
ہوگا، چاہے اس میں براڈ شیٹ شامل ہو یا نہ ہو۔ بیس فیصد تلافی (Compensation) کے علاوہ، کمپنی بونس بھی چاہتی تھی۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ تلافی کے حوالے سے یہ شرائط و ضوابط نیب میں ہونے والے بحث و مباحثے میں بھی متنازع رہے تھے اور معاہدے
میں تبدیلی کیلئے کی جانے والی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ صورتحال یہ تھی کہ نیب کی جانب سے اس انتظام کی تنسیخ کے بعد بھی اس پر عمل ہونا تھا۔ معاہدے کی شق نمبر 18.5 میں کہا گیا تھا کہ تنسیخ کے نوٹس کے باوجود براڈشیٹ کو اثاثوں کی ریکوری کے کام سے
نہیں روکا جائے گا اور تنسیخ پر عمل نہیں ہوگا اور اس معاہدے میں وضع کردہ شق بدستور قابل عمل اور فعال رہے گی۔ اس بات کی تصدیق ثالثی عدالت کے جج کا فیصلہ ملا کر پڑھنے سے بھی ہوتی ہے جنہوں نے براڈشیٹ کے مستقبل میں ہونے والی کسی بھی ممکنہ ریکوری پر بیس
فیصد حصے کے دعوے کی توثیق کی۔ معاہدے کی شق نمبر 14 میں اس معاہدے کو خفیہ رکھنے کی بات بھی شامل کی گئی ہے۔ نیب اور براڈشیٹ نے اتفاق کیا تھا کہ وہ اس معاہدے کے حوالے سے یا پھر اس معاہدے کے نتیجے میں ہونے والی کسی کارروائی کے حوالے سے کسی کو
(ماسوائے اپنے پیشہ ورانہ مشیروں یا اور متعلقہ حکام یا پھر ضرورت پیش آنے پر عدالتوں کو) کسی طرح کی بھی معلومات فراہم نہیں کریں گے۔ شاید اسی شق کی وجہ سے یا پھر کسی طرح کی بحث و مباحثے سے بچنے کیلئے اس معاہدے کو خفیہ دستاویز قرار دیا جا رہا ہے۔ شق نمبر 5.2 کے
مطابق، ریکور کی جانے والی رقم کسی جگہ محفوظ رکھنے کے حوالے سے دونوں فریقین نے اتفاق کیا تھا کہ اس مقصد کیلئے دونوں فریقین کے متفقہ بینک میں ایسکرو اکائونٹ قائم کیا جائے گا جسے دونوں نیب اور براڈشیٹ مل کر کنٹرول کریں گے اور اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا
کہ براڈشیٹ کی جانب سے کی گئی ریکوری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اثاثہ جات یا رقم کسی اور جگہ نہیں بلکہ ایسکرو اکائونٹ میں ہی رکھی جائے گی۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ ایسا کوئی اکائونٹ بنایا گیا تھا کہ نہیں۔ نیب اس بات کا پابند تھا کہ وہ اس معاہدے کے تحت وہ
رجسٹرڈ لوگوں یا اداروں تک معلومات پہنچاتا۔ یہ معلومات فراہم کرنا چیئرمین نیب کی صوابدید میں شامل تھا۔ چیئرمین نیب کے پاس شاید یہی ایک صوابدیدی اختیار تھا جس سے وہ لطف اندوز ہوتے رہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس صوابدید کا غلط استعمال کیا گیا کیونکہ ادارے کو سیاسی معاملات
طے کرنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ براڈشیٹ کو پاور آف اٹارنی دی گئی کہ وہ جہاں ضرورت پیش آئے وہاں ضروری اقدامات کرتے ہوئے نہ صرف ہدف بنائے جانے والے افراد کے اثاثے ضبط کر سکتا ہے بلکہ چاہے تو مالی اور غیر مالی نوعیت کے اثاثہ جات واپس کرنے کیلئے مذاکرات
بھی کر سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک پاور آف اٹارنی پر 9 اگست 2000 پر عمل کیا گیا تھا جس میں نواز شریف سے اثاثوں کی ریکوری کیلئے بات چیت کا حوالہ شامل ہے۔ براڈ شیٹ اس بات کی پابند تھی کہ وہ چیئرمین نیب کو باقاعدگی کے ساتھ اثاثوں کی تلاش اور قانونی کارروائیوں کی
صورتحال سے آگاہ کرتی رہے۔ اس لحاظ سے براڈشیٹ اتفاق کرتی ہے کہ وہ چیئرمین نیب کے سوالوں کا جواب دیتی رہے گی یا جیسے ہی کوئی معلومات سامنے آئی وہ فراہم کرے گی بشرطیکہ رابطوں کیلئے محفوظ ذرائع استعمال کیے جائیں گے اور سختی کے ساتھ رازداری سے کام لیا
جائے گا۔ معاہدے کی شق نمبر 3.5 میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران اگر کوئی رجسٹرڈ شخص یا کوئی ادارہ یا پھر کوئی اور شخص براڈ شیٹ یا پھر نیب سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس شخص کے حوالے سے فوری طور پر نیب یا پھر براڈشیٹ ایک دوسرے کو آگاہ کرنے
کی پابند ہوں گے۔ معاہدے کی شق نمبر 10 کے مطابق، یہ معاہدہ خصوصی طور پر نیب اور براڈشیٹ کے درمیان ہے جس میں وقتاً فوقتاً تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس معاہدے پر اس وقت کے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد نے دستخط کیے تھے جبکہ براڈشیٹ کی طرف سے ڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر نے دستخط کیے تھے۔ اس وقت کے پراسیکوٹر جنرل نیب اور براڈشیٹ کے نمائندے طارق فواد ملک نے بطور گواہ اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔