مکوآنہ۔/ جڑانوالہ (این این آئی )پنجاب کی افسر شاہی اس وقت شدید تنائو اور جمود کا شکار نظر آتی ہے کسی بھی افسر کا کام کرنے کو دل نہیں کرتا ہے ہر کوئی ڈنگ ٹپائو پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ اکثر سیکرٹری سول سیکرٹریٹ آتے ہی نہیں اور گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کورونا کی وجہ سے سیکرٹری سول سیکرٹریٹ نہیں آ رہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق فائل ورک سست روی کا شکار ہے اور افسران فائلوں پر بے جا اعتراضات لگا کر فائلوں کو واپس بھیج دیتے ہیں۔ سرکاری بجٹ کم شرح سے خرچ کیا جا رہا ہے ۔ ترقیاتی بجٹ کا صرف ساٹھ فی صد حصہ ہی خرچ کیا جا رہا ہے اور اس طرح چالیس فی صد فنڈز خرچ ہی نہیں کئے گئے ۔نیب اور اینٹی کرپشن کا ایک انجانا خوف افسر شاہی کو کام سے روک رہا ہے۔ افسر شاہی میں قوم کی خدمت کا جذبہ ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ عوام بے چارے سارا دن دفاتر کے چکر لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ عوام کو یہ کہ کر ٹڑخا دیا جاتا ہے کہ صاحب بہادر اجلاس میں مصروف ہیں۔ سرکاری محکموں میں پچاس فیصد سٹاف سے کام کیا جا رہا ہے اور باقی پچاس فیصد سٹاف کورونا کی وجہ سے گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہا ہے۔افسر شاہی اچھی تقرری لینے اور اگلے گریڈ میں ترقی کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے اور اپنے سرکاری امور جو کہ ان کی
اولین ڈیوٹی ہیں، ان پر توجہ نہیں دیتی ۔ پنجاب میں ابھی تک یہ تعین نہیں ہو سکا ہے کہ پنجاب میں طاقت کا سر چشمہ کون ہے اور کون حکومت چلا رہا ہے ۔چیف سیکرٹری آفس کوغیر فعال بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور چیف سیکرٹری کے بھی تمام اختیارات وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ استعمال
کررہا ہے۔چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کا ٹرانسفر پوسٹنگ میں عمل دخل کم کر دیا گیا ہے۔ اعلی سطح پر فیصلہ سازی بھی سست روہی کا شکا رہے اور سیکرٹری کی سطح پر اس کے اثرات منفی پڑ رہے ہیں۔ مختلف محکمے ایک دوسرے سے نبرا زما ہیں اور کوئی بھی
بڑا ایشو ہوتا ہے تو محکمے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال دیتے ہیں ۔ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کی مثال سامنے ہے، اس انڈر پاس کو تین چار ماہ میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن اس پر ایک سال لگ گیا ہے اور وزیر اعلی کے دورے اور ڈیڈ لائن کے باوجود بھی اسے وقت پر مکمل نہیں کیا
جا سکا تھاـابھی تک فردوس مارکیٹ انڈر پاس کی اپروچ روڈ کو بھی مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اگر ایک پراجیکٹ جس میں وزیر اعلی دلچسپی لے رہے ہوں اور وہ پراجیکٹ لاہور میں ہونے کے باوجود وقت پر مکمل نہیں ہو پاتا ہے تو صوبے کے باقی منصوبوں کا کیا حال ہوگا۔ انہیں کیونکر
وقت پر مکمل کیا جا سکے گا۔ پی اینڈ ڈی بورڈ میں ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں اور بورڈ کے اجلاس ہی وقت مقررہ پر نہیں ہوتے ہیں۔جس سے پلاننگ بروقت نہیں ہو پاتی ہے اور اس طرح محکموں سے آئے منصوبے پی اینڈ ڈی بورڈ میں پڑے رہتے ہیں۔ اور اس طرح پی اینڈ ڈی
میں بھی بیوروکریسی ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ عوام اس وقت تھانہ کچہری سے بھی تنگ ہیں ۔ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں ۔ سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے دس سال تھانہ کلچر کو بہتر کرنے پر لگا دیئے تھے ،لیکن تھانہ کلچر تبدیل نہ ہو سکا اور اب عثمان بزدار کی حکومت
یہی کام کر رہی ہے۔سیاسی آقاوں کو خوش کرنے میں مصروف ہے اور اس سلسلہ میں آئے روز کے تقرر و تبادلے کئے جا رہے ہیں۔ اور یہ تقرر و تبادلے بھی چیف سیکرٹری کی رضامندی کے بغیر ہی ہو رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری کو ان تقرر و تبادلوں سے لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ جب تک
چیف سیکرٹری آفس مضبوط نہیں ہوگا بیورو کریسی کو کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا۔صوبے میں بہتر گورننس کیلئے اداروں کو ان کے اختیارات دینا ہوں گے۔ایوان وزیراعلیٰ کا کام نگرانی ہوتا ہے،مگر ایوان وزیراعلیٰ نے نگرانی کی بجائے تمام اختیارات خود اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔جس کے باعث کام کی رفتار سست ہے۔ صوبے میں ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے اداروں کو بااختیاربناناہوگا۔