راولپنڈی (این این آئی)پاک فوج کے ترجمان میجر بابر افتخار نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان میں منظم دہشت گردوں کا کوئی اسٹرکچر موجود نہیں ،2020 میں ہی سیکیورٹی چیلنجز کے علاوہ ٹڈی دل اور کووڈ 19 جیسی وبا نے پاکستان کی معیشت اور خوراک کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالے رکھا،بھارت کے مذموم عزائم ہوں یا پاکستان کیخلاف ہائبرڈ وارفیئر کی ایپلی کیشن،
خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی ،ہم نے ہمیشہ ثبوتوں اور حقائق کے ذریعے نشاندہی کی اور کامیابی سے مقابلہ کیا ،س کو اب دنیا بھی مان رہی ہے ، سچ ہمیشہ غالب آتا ہے ،مغربی سرحد امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری لائی گئی ہے، 2611 کلومیٹر پر 83 فیصد کام مکمل کرلیا ہے جو سال کے وسط تک مکمل ہوجائے گا۔پیر کو یہاں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ پریس کانفرنس کا مقصد ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک دہائی کے سیکیورٹی چیلنجز کا جائزہ اور دیگر اہم امور پر آپ کو آگاہی دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت چیلنجز وقت تھا، صرف 2020 میں ہی سیکیورٹی چیلنجز کے علاوہ ٹڈی دل اور کووڈ 19 جیسی وبا نے پاکستان کی معیشت اور خوراک کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالے رکھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں ایک طرف مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی شرانگیزی جاری تھی تو دوسری طرف مغربی سرحد پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں ان کے جوڑ توڑ اور پشت پناہی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا تھا، اس تمام چیلنجز کے باوجود ریاست، تمام قومی اداروں، افواج پاکستان، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سب سے اہم پاکستانی عوام نے متحد ہوکر ان مشکلات کا مقابلہ کیا اور بحیثیت قوم اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد پر قبائلی اضلاع میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ سماجی معاشی منصوبوں کا آغاز کیا جاچکا ہے، پاک افغان اور پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مربوط اقدامات کیے گئے، دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن سے سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہوئی۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ بھارت کے مذموم عزائم ہوں
یا پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وارفیئر کی ایپلی کیشن، خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی ہم نے ہمیشہ ثبوتوں اور حقائق کے ذریعے ان کی نشاندہی کی اور کامیابی سے ان کا مقابلہ کیا اور اس کو اب دنیا بھی مان رہی ہے کیونکہ سچ ہمیشہ غالب آتا ہے۔سیکیورٹی سے متعلق کیے گئے اقدامات پر انہوں نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد میں دہشت گردوں کی سپورٹ بیس، سہولت کاروں اور غیرقانونی اسلحہ و بارود کا بڑی حد تک خاتمہ کیا گیا، پاکستان میں کوئی بھی منظم دہشت گردوں کا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔صحافی کے
سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں خونی انقلاب کی کوششیں نئی نہیں ہیں، پاکستان کے دشمن ہمیشہ سے یہ کرتے رہے ہیں، گزشتہ کچھ دہائیوں میں ان میں اضافہ کیا گیا ہے، ہماری آبادی، جیو گرافی، آرمی اور اسلامی مملالک ہمارا مقام ایسا ہے کہ اس کے نتائج آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت 3 لاکھ 71 ہزار سے زیادہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے گئے، 72 ہزار سے زائد اسلحہ 50 لاکھ امیونیشن اور ساڑھے 4 سو ٹن بارود برآمد کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ
کامیابی کو اگر دیکھا جائے تو 2007 اور 2008 میں قبائلی اضلاع پر صرف 37 فیصد علاقے میں ریاستی عملداری رہ چکی تھی، آج تمام قبائلی اضلاع مکمل طور پر خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں، دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 2019 کی نسبت 2020 میں 45 فیصد کمی آئی، مزید یہ کہ 2013 میں سالانہ اوسطا 90 حملے تھے جو آج گھٹ کر 13 پر آ گئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے
اداروں نے گزشتہ سال ملک بھر میں 50 فیصد سے زائد دہشت گردی کے خطرات کو ناکام بنایا، مزید یہ گزشتہ 2 دہائیوں میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں میں 2013 میں یہ تعداد 414 تھا جبکہ 2020 میں یہ 98 ہے جو نمایاں کمی ہے۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 2020 میں خودکش حملوں میں 97 فیصد واضح کمی آئی ہے، مزید یہ کہ کراچی جو آبادی کے حساب سے
دنیا کے بڑے شہروں میں 12ویں نمبر پر ہے جبکہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ 2014 میں کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا جو 2020 میں 103 نمبر پر آچکا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے بڑے بڑے دارالحکومتوں سے بہتر امن و امان کی صورتحال ہے۔کراچی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہاں دہشتگردی میں 95 فیصد، ٹارگٹ کلنگ مین 98 فیصد، بھتہ خوری میں 99 فیصد جبکہ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں 98 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔مغربی سرحد سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی نے کہاکہ وہاں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری لائی گئی ہے، 2611 کلومیٹر پر 83 فیصد کام مکمل کرلیا ہے جو سال کے وسط تک مکمل ہوجائے گا۔