ٹانک (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگر ہم یہ کارکنان، جمعیت علمائے اسلام اور مذہبی طبقے کے غریب لوگ ملک کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو فوج دہشت گردی کو شکست نہیں دے سکتی تھی،ملک کا نظام جام ہوچکا ہے، اس وقت ملک کی سالانہ مجموعی ترقی کا تخمینہ صفر سے نیچے چلا گیا ہے اور شاید آئندہ سال، دو سال
اسی پوزیشن میں رہے گا،جب حکومت ناجائز اور نااہل بھی ہو تو پھر اس حکومت کو رہنے کا حق حاصل نہیں ہے،پاکستان مقدس اور اول ملک ہے، میں، آپ، سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹس، تاجر بعد میں ہیں، ملک ہوگا تو یہ سب چیزیں ہوں گی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے کام سے کام رکھنا اور دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرنے سے ملک چلے گا ورنہ پھر سمجھوتے کی سیاست ہوگی، آپ زور آور ہیں تو میں آپ کو برداشت کروں گا اور آپ مجھے کریں گے اور اسی طرح ایک دوسرے سے گزارا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ’زورآور آدمی غریب کی زمین پر ہل چلائے تو بچارا وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتا، (لہٰذا) قوم کو کمزور کرکے یہ کہنا کہ ملک میں امن ہے اور نظام ٹھیک چل رہا ہے، شاید ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سنجیدہ ہیں، ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں لیکن ملک کسی کی ملکیت بھی نہیں ہے بلکہ یہ سب کا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ دنیا میں جہاں آمر ہوگا اس کو زمین سے دلچسپی ہوگی جبکہ جہاں جمہوریت ہوگی وہاں عوام سے دلچسپی ہوگی۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آمرانہ قوت علاقے پر قبضے اور اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا سوچتی ہے جبکہ جمہوری ماحول میں لوگوں کی فلاح و بہبود مقصود ہوتی ہے، عوام خوش ہے تو پھر سیاست، پارلیمنٹ اور ملک کا نظام بھی ٹھیک چل رہا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کا نظام جام ہو
چکا ہے، اس وقت ملک کی سالانہ مجموعی ترقی کا تخمینہ صفر سے نیچے چلا گیا ہے اور شاید آئندہ سال، دو سال اسی پوزیشن میں رہے گا جبکہ اسٹیٹ بینک کہتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سطح پر معیشت نہیں گری۔سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ جب حکومت ناجائز اور نااہل بھی ہو تو پھر اس حکومت کو رہنے کا حق حاصل نہیں ہے، صرف حکومت کو ہی نہیں بلکہ جو قوت بھی
ایسی حکومت کو سہارا دے گی وہ بھی مجرم ہوگی، اصل میں بڑی مجرم وہی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مقدس اور اول ملک ہے، میں، آپ، سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹس، تاجر بعد میں ہیں، ملک ہوگا تو یہ سب چیزیں ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ تعریفیں کی جاتی ہیں جو بری بھی نہیں ہیں کہ ’فوج نے قربانیاں دی ہیں، جوانوں نے ملک کے لیے جانیں شہید کی ہیں‘، ہم کہتے ہیں کہ ’اللہ
قبول فرمائے (لیکن) آپ نے تو پیٹی اسی لیے باندھی ہے، آپ نے رینک اسی لیے لگائے ہیں اور تنخواہ بھی اسی چیز کی لیتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ہم جو رضاکار لوگ ہیں انہوں نے کتنے علما، کارکنوں کی شہادتیں دی ہیں جو اس ملک کے لیے ہیں کہ ہم آئین، قانون اور ملک کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ خاکم بدھن، چھوٹا آدمی ہوں لیکن یہ بات کرنے کی
جرات کررہا ہوں کہ ’اگر ہم، یہ کارکنان، جمعیت علمائے اسلام اور مذہبی طبقے کے غریب لوگ ملک کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو فوج دہشت گردی کو شکست نہیں دے سکتی تھی۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ 1973 کا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہے، پاکستان کا نظام قرآن و سنت کے تابع ہوگا، حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور عوام اپنے نمائندوں کی وساطت سے
اللہ کی نیابت کا فرض ادا کریں گے لیکن آج تک ایک قانون سازی بھی قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جب آئین واضح ہے تو پھر جب رکاوٹیں ہوں تو ہمیں اسے سمجھنا چاہیے، پھر سیاسی قوت بڑھانی چاہیے اسے آگے لے جانا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین و قانون سے تصادم نہیں کرنا بلکہ ملک کا نظام جتنا مجھے حق دیتا ہے اسے استعمال کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے طاقت ور قوتوں کو کہنا ہے کہ آئین سے تجاوز آپ کر رہے ہو، قانون کو پامال آپ کر رہے ہو، ہم نہیں، آئین اور قانون ہمارے سر کا تاج ہے، آپ نے تو اسے اپنے پاؤں کے نیچے روندھا ہے، آئین و قانون کو میں نے حاکم اور آپ نے گھر کی لونڈی سمجھا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سودا نہیں چلے گا، صحیح راستے پر آؤ، میں نے پارلیمنٹ
میں جو حلف اٹھایا ہے آپ بھی اس کے پابند رہو، فوج نے بھی تو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا ہے، جب نئی بھرتیاں ہوتی ہیں تو باقاعدہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم نے سیاست میں کوئی حصہ نہیں لینا لیکن آج جب سیاست پوری ان کے کنٹرول میں ہو‘، تو اس سے نظام میں توازن بگڑ جاتا ہے۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں اصولی سیاست کرنی ہے،
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور اس کی قیادت جے یو آئی کر رہی ہے، پورے ملک کی سیاست نے اگر آپ پر اعتماد کیا ہے تو ہم نے بھی قوم کیاعتماد پر پورا اترنا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نواز شریف نے 2 خط لکھے ’ایک اپنے بھائی کے نام جبکہ دوسرا براہ راست میرے نام لکھا ہے جو برطانیہ سے آیا ہے اور اس میں کہا ہے کہ جب فضل الرحمٰن
کہہ رہا تھا کہ ہمیں اسمبلیوں میں نہیں جانا چاہیے اور حلف نہیں اٹھانا چاہیے تو ان کی یہ رائے صحیح تھی اور اب ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ مرحلہ تھا، جب تمام جماعتوں نے کہا کہ ہمیں اسمبلیوں میں جانا چاہیے تو ہم بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہے لیکن اس تاویل کے ساتھ کہ پھر ہم اکثریت کا دعویٰ کرلیں۔مولانا نے کہا کہ جب ہم اکثریت کا دعویٰ کرلیں اور یہ
کہیں کہ حکومت ہم بنائیں گے تو یہ ایک جواز پیدا کرسکتا ہے کہ ہم اسمبلی میں جاکر حلف اٹھائیں اور دھاندلی کی قوت کو شکست دے دیں، جس کے بعد اس پر اتفاق ہوا اور وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن لڑا گیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم دباؤ قبول نہیں کرتے بلکہ دباؤ ڈالتے
ہیں، کہتے ہیں فضل الرحمٰن کو احتساب دینا ہوگا لیکن میں نے کہا کہ ابھی تو تم میرے احتساب کے شکنجے میں ہو۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ عمران خان کہتا ہے کہ فضل الرحمن کو سرنڈر کرنا پڑے گا تو میں کہتا ہوں کہ سرنڈر جنرل نیازی ہوا کرتا ہے فضل الرحمٰن نہیں، سرنڈر والے (آپ) کے اپنے قبیلے کے لوگ ہیں۔