اسلام آباد (این این آئی)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علما اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عظیم تر مقصد کیلئے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ضیا الحق کے زمانے میں اپنی زندگی کی طویل جیل گزاری لیکن آمریت کو تسلیم نہیں کیا،یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ آج کل شیخ رشید وزیر داخلہ ہیں، ایک جعلی حکمران مجھ پر مسلط ہے اور میرے
احتساب کی باتیں کرتا ہے، نیب کا کوئی نہ اتا ہے نہ پتا یہ باتیں پہلی بھی اڑیں کہ مجھے نوٹس دیا گیا ہے، نیب کی جانبداری تو عدالت کی سطح پر بھی ختم ہوچکی ہے، اپنی ذات کے حوالے سے مولانا شیرانی کو ساری عمر برداشت کرتا رہا ہوں،مولانا شیرانی کے بیان سے متعلق جماعت نوٹس لے رہی ہے اور کمیٹی بن چکی ہے،حکومت مخالف تحریک کا آغاز 26 جولائی 2018 کو ہوچکا تھا،ہمارا متفقہ موقف تھا کہ 25 جولائی کو دھاندلی ہوئی ہے، ایک تسلسل کے ساتھ اب تک ہم آگے آرہے ہیں،تحریک اپنے سفر کے دوران نیشب و فراز کا شکار ہوتی رہتی ہے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ شیخ رشید میرے دوست ہیں ان کی عزت کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ آج کل شیخ رشید احمد وزیرِ داخلہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک جانب ڈی آئی خان کی پولیس کہتی ہے کہ سیکیورٹی واپس لینے کا کہا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ جان کا خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ ہمیں ڈرانے کے لیے ان عناصر کو تو راستہ نہیں دیا جارہا ہے، عظیم تر مقصد کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ہم خراج دینے کو تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے علما اور لوگ شہید کیے گئے ملک بچانے کے لیے ہم نے قربانیاں دی ہیں۔برطانوی ایجنسی کے بیان سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ
پہلے تو مجھے یہ بتائیں ایم آئی ہے کیا؟ یہ وہ لوگ نہیں جن کے کسی بیان کا میں نوٹس لوں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے بیانات سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات پر کیا اثرات پڑیں گے؟ ایسے بیانات سے تو برطانیہ اور ان کی ایجنسیوں کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ابھی میں اس کا حساب لے رہا ہوں کہ کیسے جعلی حکمران بن کر بیٹھا ہے، ابھی تو وہ میرے احتساب کے شکنجے میں جکڑا ہوا
ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کون ہوتا ہے کہ ہمارا حساب لے، خود حساب دے کس ناجائز طریقے سے آیا ہے؟ صفائی پیش کرے۔انہوں نے کہا کہ ایک جعلی حکمران مجھ پر مسلط ہے اور میرے احتساب کی باتیں کرتا ہے، نیب کا کوئی نہ اتا ہے نہ پتا یہ باتیں پہلی بھی اڑیں کہ مجھے نوٹس دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا پر خبر چلانا اور مجھ تک نوٹس نہ آنا اس کا بھی ہمیں نوٹس لینا چاہیے۔انہوں نے
کہا کہ سپریم کورٹ نے اسی نیب کے خلاف فیصلہ دیا ہے کہ سیاستدانوں کو بدنام کر رہا ہے، نیب کی جانبداری تو عدالت کی سطح پر بھی ختم ہوچکی ہے۔مولانا فضل الر حمن نے کہا کہ میرے اردگرد کے لوگوں کو نیب کے نوٹس آرہے ہیں اور فضول آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک شخص جس کو مشرف اور اس کے بعد کتنی حکومتیں گزریں کوئی ایک کیس نہیں لاسکا، 1988 سے اسمبلیوں
میں ہوں اور آج تک اسلام آباد میں میری جھونپڑی تک نہیں، لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں فلاں سیکٹر میں میرے دو بنگلے ہیں پلاٹس ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے اوپر لگے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر چک شہزاد میں 3 ارب کے پلاٹ بیچے یا خریدے ہیں تو پھر پورا چک شہزاد میرا ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں کہا گیا دبئی میں میرا ہوٹل ہے، کہا گیا میں نے
پرمٹ لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں بے گھر ہوں کوئی نہیں پوچھتا، میرے دوستوں کا خریدا ہوا مکان ہے کہ میرے سر پر چھت تو ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر نیب کا نوٹس آیا تو دو پہلوں سے جائزہ لینا ہے، ایک سیاسی پہلو جس پر جماعت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ جانا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حملہ شاید مجھ پر نہیں، کارکن اور جماعت سمجھتی ہے کہ یہ حملہ جے یو آئی پر ہے،
پھر ایک فضل الرحمن نہیں پوری جماعت نیب کے دفتر میں پیش ہوگی۔انہوں نے کہا کہ کارکن مجھ پر اعتماد کرتے ہیں آج تک کسی سطح پر کوئی شکایت نہیں آئی ہے، میرے کارکن میرے گھر اور میری زندگی کو جانتے ہیں۔مولانا شیرانی کے بیان پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اپنی ذات کے حوالے سے مولانا شیرانی کو ساری عمر برداشت کرتا رہا ہوں، وہ میرے بزرگ
ہیں ان کا احترام کرتا رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کہ اگر جماعت کے نظریات سے ہٹ جائیں اور جماعت عمران خان کے مدِمقابل محاذ پر ہو اور اس وقت آپ حکومت کی حمایت میں بات کریں تو پھر اس کا نوٹس جماعت لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا شیرانی کے بیان سے متعلق جماعت نوٹس لے رہی ہے اور کمیٹی بن چکی ہے، اجلاس بلائے جاچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں
مولانا شیرانی کے بیان سے متعلق تشویش پیدا ہوئی ہے، جماعت کی الیکشن میں تو مولانا شیرانی خود موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ میرا انتخاب تو بِلامقابلہ ہوا، نہ مولانا شیرانی صاحب نے اور نہ کسی اور نے اپنا نام پیش کیا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ صوبائی انتخاب مولانا شیرانی نے خود لڑا، جماعت کے انتخابی عمل میں شریک رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ان کی مرضی کے مطابق
رکن سازی ہو، ادارے بنے اور ووٹ پڑیں تو یہ تو جماعتوں میں نہیں ہوتا، جے یو آئی کا ایک آزاد، نظمی انتخاب ہے اور خود مختار ناظم انتخاب ہوا کرتا ہے۔سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ جو کچھ آج نظر آرہا ہے اس کی کچھ اطلاعات میرے پاس تھیں، 1970 سے پہلے بھی جمعیت کو تقسیم کیا گیا پھر اس کے بعد بھی اختلافات پیدا کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ ضیا کے دور میں بھی
میں جمہوریت کی بات کر رہا تھا اور میں مارشل لا کے خلاف تھا، ایک آمر کو کیسے مانتا،ہم نے ضیا الحق کے خلاف جنگ شروع کی، 5 سال جیل آتا جاتا رہا ہوں، ضیا الحق کے زمانے میں اپنی زندگی کی طویل جیل گزاری لیکن آمریت کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے
کہا کہ ہماری حکومت مخالف تحریک کا آغاز 26 جولائی 2018 کو ہوچکا تھا،ہمارا متفقہ موقف تھا کہ 25 جولائی کو دھاندلی ہوئی ہے، ایک تسلسل کے ساتھ اب تک ہم آگے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تحریک اپنے سفر کے دوران نیشب و فراز کا شکار ہوتی رہتی ہے۔