حکومت کیخلاف دما دم مست قلندر کے نقشے کی تیاری ، اختر مینگل کی مریم نواز سے ملاقات ، عمران خان کیخلاف طبل بجا دیا

27  اکتوبر‬‮  2020

لاہور( این این آئی)بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ عوام کا مینڈیٹ آج نہیں بلکہ 1971 کے بعد کبھی کبھی زیادہ چوری کیا گیا، پنجاب میں پہلے اتنی مداخلت نہیں تھی جتنی بلوچستان میں تھی لیکن اب اپنی مداخلت کی اس انتہا تک پہنچ گئے کہ اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر صرف اپنی کالونی بنارہے ہیں،بلوچستان سے پھیل کر اب پورے ملک تک آچکے ہیں،

ہمارے جمہوری کلچر اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ احساس اگر کل ہوتا تو بہتر ہوتا لیکن اگر آج بھی ہوا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے،پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کا نقشہ کھنچیں گے ،عمران خان کو اقتدار میں لانے والے مطمئن نہیں تو عوام کیسے مطمئن ہوں گے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صد رمریم نواز سے جاتی امراء رائے ونڈ میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت کا ساتھ اس لیے چھوڑا کیونکہ بلوچستان کا احساس محرومی کم نہیں ہوا اگر کمی آتی تو ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے،اتحادی کچھ بنیاد اور نکات پر بنتے ہیں، کچھ وعدوں اور معاہدوں پر بنتے ہیں، جب کوئی ایک فریق اپنے ان معاہدات پر عمل نہ کرے اور اپنے وعدوں کا پاس نہ رکھے تو اس سے بڑی امید کیا رکھ سکتے ہیں۔انہوںنے مرکزی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسند والوں میں شامل تھے جب ہم ان سے مطمئن نہیں رہے تو حزب اختلاف اپنی جگہ دیگر لوگ کیسے مطمئن رہیں گے،ہم پوچھ رہے تھے ہمارے 6 نکات پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ہے، ان میں کون سی ایسی شق ہے جو غیرآئینی اور غیر قانونی ہے، اگر ایسا جرم ہم نے کیا ہے تو کیا اس پر دستخط کرنے والوں کو مجرم ٹھہرایا نہیں جاسکتا،جنہوں نے دستخط کیے ہیں وہ ایوان صدر اور اسپیکر کی کرسی میں بیٹھے ہوئے نہیں ہیں، انہوں نے ہمارے ساتھ جو معاہدے کیے تھے

وہ پورا نہیں کرسکے۔انہوں نے کہا کہ یا تو پہلے دن کہہ دیتے ،حکومت سازی کے دوران ہمارے پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی مذاکرات ہوئے تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے،یہ بھی پہلے دن کہہ دیتے تو شاید نوبت اس حد تک تلخیوں تک نہ پہنچتی اور اسمبلی کے فلور پر ہم انہیں الوداع نہ کہتے ،ہمارے نکات میٹرو بس سے مشکل نہیں تھے،ہم تو ان کے ساتھ چل رہے تھے

لیکن وہ رینگ رہے تھے تو ہماری ذمہ داری نہیں تھی ان کو کندھوں میں اٹھاتے، دو سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا ہے، اسمبلی اور تمام اجلاس میں انہیں یاد دہانی کرواتے رہے۔اخترمینگل نے کہا کہ جب انہوں نے ہمارے مطالبات نہیں مانے تو پھر ہمارا اخلاقی فرض تھا کہ ان کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے کیونکہ ہم کسی وزارت کے لیے ان کے ساتھ نہیں گئے تھے جبکہ دیگر اتحادی جو شامل ہوئے تھے

یا بھجوائے گئے تھے ان کو وزارتیں ملیں،ہماری ڈائریکشن وہی ہے یوٹرن نہیں لیا ،بلوچستان میں یو ٹرن کے بورڈ بھی نہیں ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کیا ہم سمجھیں کہ اس وقت ملک میں حقیقی جمہوریت ہے، حقیقی جمہوریت ہوتی تو ان چینلوں پر پابندی نہ ہوتی، آپ کے مالکان پابند سلاسل نہیں ہوتے اور صحافی اغوا ء نہیں ہوتے،صحافیوں کو دھمکی آمیز فون نہیں آتے،

اگر یہ جمہوریت ہے تو ایک انوکھی جمہوریت ہے۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل سابق حکمران جماعتوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام جماعتیں ماضی میں اقتدار میں رہی ہیں لیکن آج ہمارے موقف کی حمایت کر رہی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور قوت ہے جو لاپتہ افراد کے معاملات میں ملوث ہیں کیونکہ اگر یہ ملوث ہوتے تو آج ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے،جب پی ڈی ایم کا اجلاس ہوگا

تو اسکرین کے ذریعے بتائیں گے دمادم مست قلندر کیسے ہوگا۔انہوں نے نواز شریف کے بیانیے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم تو کب سے اس بیانیے پر قائم ہیں بلکہ اس بیانیے کو بنانے والے ہم ہیں۔پشاور مدرسے میں دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بڑا ہی افسوس ناک اور درد ناک واقعہ ہے، اللہ سے دعا ہے کہ شہدا ء کو جنت میں جگہ دے، یہ حکومت کی

ناکامی ہے، اگر اس میں بھارت سمیت کوئی بھی ملوث ہے تو اسکی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا ،یہ بات ہوئی ہے پی ڈی ایم کو مزید آگے کیسے لے کر جانا ہے۔ انہو ںنے کہا کہ مجھے تو بلوچستان میں کوئی حکومت نظر ہی نہیں آتی ،میں نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ سب کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے ،بلوچستان میں سب کا مینڈیٹ چوری ہوتا رہا ہے

،اب ان قوتوں کی نشاندہی ہونی چاہیے ،پنجاب میں شاید اتنی مداخلت نہیں ہوتی تھی جتنی بلوچستان میں ہوتی رہی ہے ،شاید اسی لئے پنجاب والوں کی بھی آواز اٹھنا شروع ہو گئی ہے ،جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے یہ اچھا شگون ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ جمہوریت کا علم تھامے رکھا ،پی ڈی ایم کے جلسوں کا سلسلہ جاری رہے گا ،ہمیں بھی حکومت کی طرح محاذ کھولنا ہوں گے ،

حکومت اگر ہمیں ٹف ٹائم دے رہی ہے تو ہم بھی ٹف ٹائم دیں گے۔انہوںنے کہا کہ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کی میٹنگ ہوگی ، ہم نے محاذ کھولنے ہیں دمادم مست قلندر ہونے جارہاہے،بھارتی ایجنڈے کا چورن پرانا ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میٹرو بس بنانے سے زیادہ عمران خان کے پاس اختیارات نہیں ،جمہوریت کی بساط لپیٹنے پر کہوں گا کہ کیا جمہوریت ہے؟۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…