کوڈ آف کنڈکٹ کی وجہ سے ججزبات نہیں کر سکتے لڑائی نہیں لڑ سکتے ،ہم ان کی لڑائی بھی لڑیں گے، عدلیہ کو اپنے اوپر لگے دھبے دھونا ہوں گے، مریم نواز نے حیرت انگیز اعلان کر دیا

28  ستمبر‬‮  2020

لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پارٹی کے صدر و قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے ، مسلم لیگ (ن) بھی اس گرفتاری کے خلاف ملک کے چپے چپے میں احتجاج کرے گی جبکہ مسلم لیگ (ن)

کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ مجھے ، مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کوبھی گرفتار کر لیں لیکن اے پی سی کے احتجاجی تحریک کے ایجنڈے پر عمل ہوگا ،جب ہم استعفے دیں گے تو آپ کو انتخابات کرانے کی مہلت نہیں ملے گی ، شہباز شریف کو بھائی کے ہر حکم پر لبیک کہنے کی سزا ملی ہے ، ہم انصاف پسند ججز کی بھی لڑائی لڑیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے نائب صدر مریم نواز اور دیگر کے ہمراہ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں ہنگامی پریس کانفرنس کی ۔ اس موقع پر پرویز رشید، راناثنااللہ، رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب، عطا اللہ تارڑ اور دیگر بھی موجود تھے۔ احسن اقبال نے کہا کہ شہباز شریف کو نیب گردی سے گرفتار کرنا جمہوریت میں ایک اور سیاہ دن ہے ،،کئی دنوں سے موقف کو اجاگر کرنے کی کوشش کی پاکستان میں فاشسٹ جماعت کیلئے اپوزیشن کا گلہ گھونٹا جارہاہے،مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں گلگت بلتستان میں تاریخ ساز امن قائم ہوا ، وہاں کی عوام کو حقوق ملنے کا آغاز ہوا ،گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کامیابی کی راستے میں روڑے اٹکانااورپری پول رگنگ مسلم لیگ (ن) کے صدر کو گرفتار کرنے کا مقصد ہے ،اس گرفتار کا واضح موقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اہم انتخابات میں انتخابی مہم چلانے سے روکا جاسکے ۔انہوںنے کہا کہ گلگت بلتستان ایک اہم ترین خطہ ہے ،یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے سی پیک کا روٹ گزرتا ہے

اور اس خطہ میں سیاسی بحران پیدا کرنا یا اس خطے میں انتخابات میں دھاندلی کرنا پاکستان کے ساتھ سنگین جرم ہے ۔ یہ اقدام مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابی مرحلے کو سرٹیفکیٹ اور مودی کو بیل آئوٹ دینے کے مترادف ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ میں وفاقی حکومت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے چپے چپے پر مسلم لیگ (ن) کا ووٹر اپنے ووٹ اور مینڈیٹ کی حفاظت کرے گا اور

اگر کسی کو یہ خیال ہے کہ اس قافلے کو روک سکتا ہے تو اسے اپنا ذہن صاف کر لینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی گرفتاری ایک پبلک سروس جمہوریت اور ہماری قوم کے لئے بد ترین المیہ ہے کہ وہ شخص نے جس نے شبانہ روز پنجاب کے عوام کی خدمت کی جس کی محنت دیانتداری کی گواہی اپنے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگ دیتے ہیں جس طرح اس نے پنجاب کے اندر

محنت کی اور یہاں غریبوں کی خدمت کی بیوائوں کی خدمت کی مجبوروںکی خدمت کی بے سہارا نو جوانوں کے سر پر پیف سکالر شپ کے ذریعے ہاتھ رکھا پنجاب کے ہسپتالوں کے دروازے مفت ادویات کے ذریعے غریبوں کے لئے کھولے آج اس رہنما کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے یہ ایک بد ترین دھبہ ہے ، یہ تاریخ کے اوپر ظلم ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے پاکستان

ڈیمو کریٹک موومنٹ کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں اس پر اپنا لائحہ عمل طے کریں گی ،مسلم لیگ(ن) بھی ملک کے کونے کونے میں اس گرفتاری اور غیر آئینی اورغیر جمہوری اقدام پر احتجاج کرے گی ،ہم قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بھی ریکوزیشن کریں گے تاکہ اس کے ذریعے بھی احتجاج کیا جا سکے ، ہم حکمرانوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ نے طبل

جنگ بجایا ہے ہم اس جنگ کو لڑیں گے اور اس جنگ کو جیتیں گے۔ مریم نواز نے کہاکہ حضرت علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی اور آج بہت ہی افسوسناک دن ہے ،دو تین سال میں اس حکومت میں عجیب معاملات ہوئے ہیں ، سقوط کشمیر ہوا ہے ،پہلی بار اتنی مہنگائی ہوئی ہے ،اپوزیشن پر کریک ڈائون ہوا ہے ، پہلی بار گناہ کرنے

کے باوجود یہ احتساب سے بالا تر ہیں ،پہلی بار ان کی حکومت کے اندر قائد حزب اختلاف کو دوبار گرفتار کیا گیا ہے ، مجھے ذرا برابر بھی شک نہیں ہے کہ محمد شہباز شریف کو کسی قسم کے احتساب کی خاطر یا الزام پر گرفتار نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ان پر ریفرنس چل رہا تھا ریفرنس کے دوران گرفتار کرنا کہاں کا انصاف ہے ،ڈیڑھ سال ہو گیا ہے میرے خلاف ریفرنس نہیں بنا ، مجھ سے

تحقیقات کے نام پر نیب میں کہانیاں سنائی جاتی رہیں کہ گھر میں کیا کھاتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ شہباز شریف کوعدالتوںکے چکر لگوائے گئے لیکن فیصلے پہلے لکھ کر لائے ہوتے ہیں کہ گرفتار کرنا تھا، گرفتاری کے حوالے سے کوئی دورائے نہیں ہے ،میڈیا والے اس قسم کی فیصلے دینے والے لوگ جانتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) بھی بھی بہت اچھے سے جانتی ہے ۔شہباز شریف کو جس کی سزا

ملی انہیں جس طرح عدالتوںکے چکر لگوائے جارہے ہیں ، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ، جس طرح ان کی اولاد ،بیوی کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شہباز شریف نے سر توڑ کوششوں کے باوجود اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا ،انہوںنے نہ صرف اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بھائی سے وفاداری کی اور ان کی کاز کے ساتھ کمٹمنٹ نبھائی ہے

ہے ، وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ڈگمگائے ، ان کی اہلیہ اور بیٹوں کو اشتہاری بنا دیا گیا ،حمزہ شہباز تیرہ ماہ سے جیل میں ہے اسے وہاں کورونا ہوگیا ہے لیکن اس پر بھی الزام ثابت نہیں ہوا ، ان سارے سارے مظالم کے باوجود اوراوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود شہباز شریف اپنے بھائی کے ساتھ کھڑا ہے ۔ا نہوں نے حالیہ دنوںمیں شہباز شریف کے دو تین بیانات سامنے آئے ہیں ، انہوں نے

واضح کہا ہے کہ آپ نے مجھے گرفتار کرنا ہے کر لیں لیکن نواز شریف نے جو تقریر کی ہے جو اے پی سی کا اعلامیہ ہے آیا ہے اس میں جو پلان دیا گیا ہے اس پر سو فیصد عملدرآمد ہوگا، میاں صاحب نے جو تقریر کی ہے میں اپنے بھائی کے ساتھ کھڑا ہوا ، اس میںکوئی غلط بات نہیں کی گئی اور یہ آئین اور آئین کی روح کے مطابق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو کسی الزام پرگرفتار

نہیں کیا گیا ،ا گر اس ملک میں کوئی قانون ہے کوئی انصاف ہے یا قانون کا نمونہ ہے تو شہباز شریف کی بجائے جنرل عاصم سلیم باجوہ کی گرفتاری ہونی چاہیے تھی ، جن کی 99کمپنیز اور سینکڑوں فرنچائز ز نکلی ہیں ۔ شہباز شریف کا تعلق تو کاروباری گھرانے ہے اور ان کا خاندان 1930سے کاروبار کر رہا ہے ، ان کے والد جانے مانے بزنس میں تھے اور ان کا کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا اور

اس وقت تو وہ سیاست میں بھی نہیں آئے تھے۔ عاصم سلیم باجوہ تنخواہ ملازم تھے ، تنخواہ پر پر گزارا کرنے والا لاکھوں، کروڑوں نہیں بلکہ ارب پتی ہو جائے تو وہ قابل احتساب ہے، ان کی کمپنیاںنکلی ہیں ، فرنچائز زنکلی ہیں ،نیب تو فرمایا کرتا تھا ہم فیس نہیں دیکھتے ہیں اب نیب کو کیس نظر کیوں نہیں آرہا ۔انہوں نے کہا کہ میں نیب کی بات ہی نہیں کرنا چاہتی ، جس طرح سپریم کورٹ ،

ہائیکورٹس نے نیب کی کی ساکھ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے والے ادارہ ہے اس کے بعد کسی شک و شبہ کی ضرورت نہیں رہتی، اسے بی آر ٹی کا منصوبہ ، روز بسوں میں لگنے والی آگ ، بلین ٹریز سونامی، وزراء کی کرپشن نظر نہیں آتی ، کس طرح راتوں رات جہانگیر ترین صاحب کو پاکستان سے باہر سمگل کرا دیا جاتا ہے ،جے آئی ٹی بنتی تو جہانگیر ترین کہتے

ہیں میری طبیعت خراب ہے میں نہیں آ سکتا ،بیٹے کو بلایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں میں اپنے والد کی تیماری داری کر رہا ہو۔ عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ کے نام اثاثے آئے لیکن نیب کو کیس نظر نہیں آیا ، عمران خان کو کیس نظر نہیں آیا ۔ا نہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز پینتالیس سال کا ہے وہ الگ سے کاروبار نہیں کر سکتاان کے کاروبار کو زبردستی والد سے جوڑ دیا جاتا ہے ، عاصم سلیم باجوہ

کے کاروبار میں ان کی اہلیہ کے اثاثے نظر نہیں آتے ، تنخواہ دار کے بچوںکے اثاثے نظر نہیں آتے ۔ ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کس قسم کا انصاف ہے ، ججز پر دبائوڈالا جاتا ہے ،میڈیا پر دبائو ڈالا جاتا ہے ۔عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے وضاحت آ گئی کہ اسے چلائو لیکن یہ پتہ ہی نہیں کہ خبر کیا ہے کس کی وضاحت چلنی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ

مسلم لیگ (ن)اداروں کے خلاف ہے لیکن موجودہ حکومت عدلیہ ہو یا کوئی اور ادارہ ہو ،ججز کو بلیک کرتے ہیں اس سے زیادہ عدالتوں کو اور اداروں کو کوئی اور حکومت نہیں بنا سکتی ۔انہوںنے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف کچھ ثابت نہیںہوا، ان کے بچوں کے کاروبار ہیں۔ دوسری طرف جو ثبو ت ہیں انہیں دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے لیکن وہ کسی کو نظر نہیںآئے ۔ انہوں نے کہا کہ

کبھی مولا نافضل الرحمان کو نوٹس دیدیتے ہیں ، ہے کسی میں ہمت جو عاصم سلیم باجوہ کو نوٹس بھیجے ۔انہوںنے کہا کہ (ن) سے( ش) اور ش( ش ) سے (ن) نکالنے والوں کی اپنی چیخیں نکل گئی ہیں ،(ن) اور (ش) ایک ہیں ،وہ لوگ جن کو اپنے رشتوں کا پتہ نہیں جورشتوں کے تقدس کو جانتے ہیں ، جنہوںنے رشتوں کو ستعمال کیا ہے وہ بھائیوں کے درمیا ن بھائی چارے ، محبت اور کمٹمنٹ کو

نہیں سمجھ سکتے ۔مریم نواز نے کہا کہ شہباز شریف کی تیس ، چالیس سے ذاتی سوچ ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست بہتر ہے وہ یہ بات میاں صاحب سے بھی کرتے ہیں لیکن جب میاں صاحب فیصلہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے شہباز شریف سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ شہباز شریف آج ہمارے صدر ہیں انشا اللہ رہیں گے وہ بھی نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں اور ان کے ہر حکم پر لبیک

کہتے ہیں ، انہیں لبیک کہنے کی ہی سزا ملی ہے ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو یہ خوف ہے کہ شہباز شریف ان کے متبادل ہے اگر تھوڑی سی بھی جگہ بنی شہباز شریف متبادل کے طورپر ان کی جگہ لے لیں گے ،عمران خان کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہو ، تم مسلط شدہ ہو ،تمہیں لایا گیا ہے تمہیں 22کروڑ عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا ہے ،جی ایچ کیو میں گلگت بلتستان کے معاملے پر میٹنگ

چل رہی ہے اور تم ساتھ والے کمرے میں چھپ کر بیٹھے تھے ۔انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کو تیرہ ماہ سے صرف اس لئے قید کر رکھا ہے کہ وہ پنجاب کا قائد حزب اختلاف ہے وہ اپنے اراکین اسمبلی کو کنٹرول کر سکتا ہے وہ تحریک چلا سکتا ہے ، یہ عمران کا خوف ہے، عمران خان شہباز شریف کو اپنے متبادل کے طو رپر دیکھ رہا ہے ، عوام کی نظر میں بالخصوص پنجاب کی عوام کی نظر میں

شہباز شریف متبادل ہی نہیں بلکہ صرف واحد چوائس ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان بیساکھیوں کے سہارے ہے ، اس کی رسی دراز ہے ، جو مہلت ملی ہو ئی ہے اسے چالاکی نہ سمجھے ،جو ادارے بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایک ایسے شخص کو قوم کے سر پر مسلط کر دیا گیا ہے نا تجربہ کار ہے جسے حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ، جس کے پاس

کوئی تجربہ ،عقل اور فہم و فراست ، یہ نادان دوست ہے ،آج اس نے ملک کو دورائے پر لا کھڑا کیا ہے ، عمران خان سے زیادہ کسی اور نے اداروں کو بدنام کیا ہے؟ ، اس نے اپنی گندی سیاست کے لئے استعمال کیا ہے ، سب کو یہ سوچنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن)22کروڑ عوام کی ترجمانی کرتی ہے وہ بھی اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر عمران خان کواسی طرح سپورٹ کیا جاتا

رہا اور ملک کو اندھیروں میں جھونکا جاتا رہا تو پھر بات مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے بھی با ہر چلی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک اے پی سی کا تعلق ہے اس کے ایجنڈا پر عملدرآمد کا تعلق ہے تو شہباز شریف شریف ،مریم نواز کو گرفتار کریں یا یہاں موجود (ن) لیگ کے تمام شیروں کو گرفتار کریں یہ تحریک رکنے والی نہیں ہے یہ تحریک چلے گی انشا اللہ پورے جذبے سے چلے گی،

آپ کہتے ہیںکہ اپوزیشن استعفے دے ہم کل نئے انتخابات کر ادیں گے یہ آپ کا خوف ہے جو بول رہا ہے ،آپ نہ انتخابا ت کرا سکیں گے اور نہ آپ کو مہلت ملے گی ، آپ میں ہمت نہیں کہ اتنی نشستوں پرانتخابات کرائیں گے ، اگر آپ انتخابات کرائیں گے تو (ن)لیگ میدان میں لڑے گی ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کو انجینئر کیا گیا ہے ، وہاں جس طرح (ن) لیگ کے لوگوں کو

توڑنا شروع کیا ہے یہ پری پول رگنگ ہے ،اسی لئے آپ کو انتخابات کو تاخیر کا شکار کرنا پڑا ہے ۔قوم اس معاملے پر نظر رکھیں ،مسلم لیگ (ن) جیتے یا ہارے اتنی آسانی سے میدان کھلا نہیں چھوڑے گی ، اپ نے انجینئرنگ کرنی ہے انتخابات چھیننے ہیں تو پھر آپ کو پاکستان کے عوام کی نظروں کے سامنے یہ سب کرنا پڑے گا آپ چھپ کر یہ نہیں کر سکتے ، آپ کامیاب نہیں

ہوں گے جو کریں گے عوام کے سامنے آئے گا اوراس کاجو نقصان ہوگا وہ آپ کیلئے بھی ہوگا۔ مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے بہت طرح کے خیالات کے لوگ ہیں ، میاں صاحب اورمیرے بیانے کے بوجھ اٹھانا ہر کسی کی بس کی بات نہیں، جو لوگ یہاںبیٹھے ہیں سب دل سے نواز شریف کے بیانیے پر دل سے لبیک کہتے ہیں،رانا ثنا اللہ کو منشیات جیسے بھونڈے کیس میں گرفتار کیا گیا ،

احسن اقبال پر لغو اور عجیب الزام لگا کر انہیں جیل میں ڈالا گیا ، کیا آپ مسلم لیگ (ن) کو توڑ سکتے ہیں یہ نہیں توڑ سکتے ۔ ظلم ،دبائواوریکطرفہ احتساب کو تو احتساب کہنا بھی احتساب کی توہین ہے ، بچوںکو بیوی گھسیٹ کر عدالت لایا گیا ،کس طرح عدالت میں سرینا عیسیٰ اپنا موقف بیان کرتی رہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دبائو کے باوجود سب نے اپنی جماعت کا دفاع کیا ، کسی نے چپ رہ کر کیا

کسی نے کبھی کیا اور کبھی نہیں کیا لیکن سب نواز شریف کو اپنا لیڈر نہیں بلکہ اپنا امام مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب سے دن میں دس بار رابطہ ہوتا ہے ، تحریک کی قیادت میاںصاحب خود کریں گے، جب میاں صاحب کے خلاف قواعد و ضوابط کے بغیر اپیل لگی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ چلنے والی تحریک سے خوف کھا رہے ہیں ،اس کو سامنے رکھتے ہوئے چاہتے ہیں کہ نواز

شریف کو واپس لے آئیں اور آئیں جیل میں لا کر ان کی آواز بند کریں ، نواز شریف لیڈ کریں گے ، وہ جس کو چاہیں گے ذمہ داریاں دیں گے ہم سب ان کا حکم مان کر چلتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج میاں صاحب کی ہدایات تھیں کہ احسن اقبال کو پہلے بولنے کی باری دی جائے ۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو جیل میں بند کرنے سے تحریک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس میں جذبہ آئے  گا

آگ بڑھکے گی ، سب نواز شریف اورشہباز شریف ہیں سب آگے بڑھ کر ہر اول دستہ بنیں گے۔ ہمارے دور میں تو ایک اشتہاری سپریم کورٹ جا کر پانامہ پر درخواست دے رہا تھا اس وقت سو موٹو آ رہے تھے ، فون کر کہا گیا کہ لاک ڈائون نہ کرو ہمارے پاس درخواست لائو ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمال کی بات کی ہے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہے کہ ایس ای سی پی سے ڈیٹا کیسے غائب ہو

گیا اورحکم امتناعی لینے آ گئے ، عدالتیں سب دیکھ رہی ہیں ، عدالتوں میں ججز کی ااکثریت آئین و قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لئے بہت مسائل ہیں، اگر وہ قانون کے مطابق راستہ اپناتے ہیں تو ان کے کیرئیر متاثر ہوتے ہیں ،میں کسی کا نام نہیں لوں گی لیکن یہاں عدلیہ میں ایک جج صاحب تھے آج عوام انہیں کس نام سے یاد کرتے ہیں ، انہیں ڈیم کے نام اور کبھی کسی اور نام

سے یاد کرتے ہیں ، آج وہ لوگوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں، دبائو کے ذریعے اور درازوں سے چیزیں نکال کر بلیک کیا گیا ، ان کے کیرئیر پر دھبہ پر لگتا ہے ، پھر جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فائز عیسی والا حال ہوتا ہے ۔ ججز کا ایک رتبہ ہوتا ہے پروفیشن کی ریکوائرمنٹ ہوتی ہے ،کوڈ آف کنڈکٹ کی وجہ سے وہ سامنے آ کر بات نہیں کر سکتے لڑائی نہیں لڑ سکتے لیکن ہم ان کی لڑائی

بھی لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو دھمکیاں مل رہی ہیںآج میڈیا کوبھی سپورٹ کی ضرورت ہے ، ملک کو سمت دینے کے لئے میڈیا کی آنکھ بہت ضروری ہے ، یہ جمہوریت کا مضبوط پلر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عاصم سلیم باجوہ کے معاملے پر میرے بڑے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ،پی ڈی ایم اوررہبر کمیٹی میں لے جا کر اس پر متفقہ فیصلہ کرینگے، یہ بات اب جائے گی نہیں اب جواب دینا

پڑے گا ۔ شہباز شریف پرکچھ ثابت نہیں ہوتا لیکن جن کی 99کمپنیز نکلی ہیں سینکڑوں فرنچائز نکل ہیںبچوں اوربیوی پر الزاما ثابت شدہ ہیں عدالت انہیںپوچھنے کی کیوں جرات نہیں رکھتی۔ انہوںنے لندن میں نواز شریف کی رہائشگاہ کے باہر احتجاج کے حوالے سے کہا کہ جن لوگوں نے احتجاج کیا انہوںنے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے ، بتائیں جب آپ کسی کاز کے لئے آئے تو پھر بزدلوں

کی طرح کیوں آئے تھے ، پی ٹی آئی والوں نے اس احتجاج سے لا تعلقی کی ہے ، نا معلوم افراد تھے ۔ نواز شریف جو جیلوں سے نہیں ڈرا ، جو اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ہمراہ وطن واپس آیا اور جیل گیا ، جس نے بیماری میں بھی جیل میںرہنا برداشت کیا اگر وہ اس وقت پیچھے نہیں ہٹا تو اب وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور قائم ہے اور زیادہ کردار کرنا چاہتے ہے ،ایسے

انسان کو ڈرانے کا سوچنا کہ وہ ڈر جائے گا دنیا کی بہت بڑی بیوقوفی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ عدلیہ سے پوری امید ہے ،پہلے کچھ فیصلے دبائو میں آکر کئے گئے ،جیسے میڈای پر دبائو ہے عدلیہ پر بھی دبائو ہے اب جبکہ دبائو ڈالنے والے کمزور ہو رہے ہیں کیونکہ سدا طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ قوی امید ہے کہ انشا اللہ آئین و قانون پر چلنے والے جو ججز ہیں وہ ضرور انصاف دیں گے ،انصاف پر مبنی

فیصلے دیں گے بلکہ عدلیہ کو آزاد کرائیں گے بلکہ عدل کوبھی آزااد کرائیں گے ، لوگوں نے جو سوالیہ نشان لگایا ہوا ہے یہ عدلیہ کی عزت کا بھی معاملہ ہے جو دھبے عدلیہ پر لگے ہیں وہ عدلیہ کو دھونے پڑیں گے۔ انہوںنے کہا کہ کچھ لوگوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں ، ہر انسان آگے بڑھ کر وہ مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ان کا ساتھ جماعت میں رہنا اورنواز شریف کو اپنا قائد ماننا اوردفاع کرنا اس

بات کا ثبو ت ہے و وہ دل سے نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہیں،جتنی جیلیں برداشت کر رہے ہیں انہیں تو مسلم لیگ (ن چھوڑ دینی چاہیے تھی ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اے پی سی کے اعلامیے کے مطابق ہمارا روڈ میپ بن رہا ہے بن بھی چکا ہے اس پریس کانفرنس میں نہیں بتا سکوں گی ، ہماری پارٹی محنت کر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ مسلم لیگ (ن) کو ٹوتتا

ہوا دیکھنا چاہتے ہیں میں چالیس سال سے یہ باتیں سن رہی ہوں ، پرویز مشرف ،اسحاق خان مرحوم کے دور میں بھی دیکھ اور سن چکی ہوں، جو بھی ایسا خیال رکھتا ہے وہ خود تاریخ ہو گیا ہے وہ یہ حسرت دل میں لے کر قبر میں چلا گیا ہے یا اگر زندگہ ہے تو حسرت لے کر تڑپتا رہے لیکن یہ حسرت پوری نہیں ہو ئی اور نہ ہو گی ۔انہوںنے کہا کہ میاںصاحب بہت جلد پاکستان واپس آئیں گے،

ان کے لئے وطن سے دور رہنا بہت مشکل ہے ،72سال کا شخص نس نے اپنا خون پسینہ ہر چیز پاکستان کو دی ہو ، جس کے والد اور اہلیہ کی قبر پاکستان میں ہو اس کے لئے ملک سے دور رہنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ نواز شریف کے دل کی ایک پیچیدہ سرجری باقی ہے ، مجھ سمیت ان کے تمام بچے ، پارٹی کے سینئر ساتھی اور عوام میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ علاج کے بغیر واپس آئیں،

میاں صاحب بیمار ضرور ہیں لیکن ان کا جذبہ بیمار نہیں ہیں وہ پوری قوم کے ساتھ (ن) لیگ کو لیڈر کریں گے اور میں عوام اور کارکنوں کو یہ خوشخبری سنا رہی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ نواز شریف کو سیاست سے باہر کر دیا وہ ہاتھ ملتے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیوں نہ بن سکی اسکا واضح مطلب ہے کہ

الیکشن مینج تھے ۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا نوا ز شریف کا اپنابیانیہ اور میرا اپنا بیانیہ ہے ،کچھ ناعاقبت اندیش دوست یہ باتیں کرتے رہتے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو ذاتی ملاقات جو دوست کی حیثیت سے کی گئی تھی اس پر بات نہیں کرنی چاہیے تھے ،انہیں سنجیدہ

قومی مفاد پر بات کرنی چاہیے تھی ،انہوں نے یہ نہیں کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے کہنے پرملاقات ہوئی ،انہوں نے کہا کہ محمد زبیر سے ملاقات ہوئی تو اس میں مریم نواز اور نواز شریف کے بارے میں بھی بات ہوئی ،ظاہر ہے جب چار گھنٹے طویل ملاقات ہو گی اس پر مریم نواز اور نواز شریف پر بات نہیں کریں گے ؟۔ میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی بہت عزت کرتی ہوں لیکن انہیں

معاملے میں پارٹی نہیں بننا چاہیے تھا، ذاتی ملاقا ت کو وسیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ جو بات میرے علم میں آئی ہیں اگر میں اس پر بات کروںگی تو کتنی بری بات ہو گی پھر تو بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے ۔محمد زبیر چالیس سال سے دوست ہیں اور اس کی تصاویر موجود ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر کو دیگر بڑے ایشوز پر بات کرنی چاہیے ۔انہوں نے طلال چوہدری کے حوالے سے

سوال کے جواب میں کہا کہ یہ خالصتاًذاتی نوعیت کا معاملہ ہے میں نے نہ ان سے اس بارے پوچھا ہے اور نہ انہوں نے مجھے بتایا ہے ، جب فریق اپنی ذاتی لائف کو پبلک نہیں کرنا چاہتے تو میری درخواست ہے کہ ذاتی زندگیوں کونہ اچھالا جائے تو بہتر ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس استعفوں سمیت فیصلہ کن لانگ مارچ ے آپشنز موجود ہیں ۔انہوں نے

شیخ رشید کے دس سوالوں بارے سوال کے جواب میں کہا کہ دس سوال اور کرنے والا مذاق ہیںاور وہ جواب کے بھی مستحق نہیں،میں لغو اور بیہود ہ باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتی ۔ انہوں نے کہا کہ شریف کے ساتھ ظلم ور

زیادتی کی آڑ میں ملک اور عدلیہ کے ساتھ ظلم ہوا جمہوریت پسند وںکے ساتھ اظلم ہوا ۔انہوں نے کہا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیںاس کو آخری حد تک لے کر جانا چاہیے اس کی تفصیلات عوام کے سامنے آنی چاہئیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…