اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات جون 2020ء کے آخر تک جی ڈی پی کی شرح کے تناسب سے سو فیصد کی حد عبور کرکے 106.8 فیصد تک پہنچ گئے۔ ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس طرح پاکستان کی اقتصادیات 1990 کی دہائی میں واپس چلی گئی ہے۔ مجموعی قرضے اور واجبات 1990ء کی دہائی میں سو فیصد کے قریب تھے
لیکن اب مجموعی قرضے اور واجبات نفسیاتی حد عبور کر گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کا توازن بھی خاصا بگڑ چکا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ادائیگیوں کا مجموعی توازن جس میں رواں اور مالی کھاتے شامل ہیں وہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں جولائی 2020ء تک ساٹھ فیصد تک بگڑ چکے ہیں۔ پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات کا حجم 44.5 ٹریلین روپے ہے۔ ماہر اقتصادیات حفیظ شیخ نے کہا کہ ن لیگ کی سابق حکومت کے آخری ایک سال میں قرضوں اور واجبات میں 15 کھرب روپے کا اضافہ ہوا تھا جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے دو سال کے عرصہ میں یہ اضافہ 14.7 ٹریلین روپے رہا۔ انہوں نے کہاکہ اگر یہی رفتار رہی تو 2023ء تک قرضے اور واجبات دگنے ہو جائیں گے۔ جب قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 50 فیصد تک ہوں تو محفوظ حد میں کہلاتے ہیں تاہم یہ حد عبور کرتے ہوئے جی ڈی پی سے 106 فیصد تک جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہاکہ روپے کی قدر گھٹنے سے خسارہ بڑھا جس سے قرضوں اور واجبات میں بھی اضافہ ہوا۔انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر ہیکرز حملہ آور ہو ئے ہوں، ایسا لگتا ہے کیونکہ وہ مختلف اوقات کے اعداد و شمار ہی دکھا رہا ہے۔اس سلسلے میں جب موقر قومی اخبار نے ڈاکٹر اشفاق حسن خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا امدادی پروگرام کچھ اس طرح سے وضع کیا گیا ہے کہ
اس سے غربت میں لازمی اضافہ ہو گا،بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو گااور مجموعی طور پر قرضے بھی بڑھیں گے۔انہوں نے بتایا کہ جب تحریک انصاف برسر اقتدارمیں آئی تو اس وقت جون 2018ء میں قرضوں اور واجبات کا حجم 29.8 ٹریلین روپے تھاجو جون 2019 ء میں بڑھتے ہوئے 40.2 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا اور اب 44.5 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ترجمان وزارت خزانہ نے بتایا کہ حکومت مالیات میں اضافے اور اخراجات میں کمی کی طویل اور وسط مدتی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے تاکہ قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔