اسلام آباد(این این آئی)کامسیٹس کے سینٹربرائے آب و ہوا اور استحکام (سی سی سی ایس) میں منعقدہ ویب نار اجلاس میںپاکستان،بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکا کے بین الاقوامی سطح پر معروف سائنسی ماہرین نے جنوبی ایشیائی خطے میں مون سون کے حالیہ تغیرات سے نبردآزما ہونے کے لیے حکمت عملی کے خدوخال وضع کر لیے۔گذشتہ روز منعقدہونے والے اس آن لائن اجلاس کا مقصد مون سون
اور اس کے تغیرات پر تبادلہ خیال کرنا تھا تاکہ ایک مشترکہ اور جامع لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے۔اجلاس کے شرکاء نے آب و ہوا میں غیر متوقع تبدیلیوں کے منفی اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں مون سون کی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نہایت اہمیت کے حامل ہیںاور عالمی سطح پردرجہ حرارت بڑھنے اور بدلتی ہوئی آب و ہوا کی وجہ سے عالمی موسمیاتی منظر نامے پر جوغیر متوقع اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہ کرہ ارض کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میںبارشوں اورآب و ہوا کے نتیجے میںجوشدید واقعات سامنے آئے ہیں،اُن میں خشک سالی اور سیلاب نمایاںہے۔ان عوامل نیخطے کی زرعی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کیے،جس سے کاشتکاری برادری کا ذریعہ معاش مخدوش ہورہاہے۔ کامسیٹس کے سینٹربرائے آب و ہوا اور استحکام کے بانی ریٹائرڈسفیر شاہد اے کمال نے ویب نار اجلاس کے شرکاء پر زور دیا کہ مون سون کو دنیا کا سب سے اہم موسمی نظام کہا جاتا ہے۔اس لیے جنوبی ایشیائی خطے میں اس موسم کے نمونہ جات میں تبدیلیوں سے متعلق قابل اعتبار پیشن گوئی کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس ویب نار اجلاس میں بنگلہ دیش کی ڈھاکہ یونیورسٹی کیایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر محمد اسماعیل، نیپال کی تریھوون یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مدن سگڈیل، محکمہ موسمیات پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر احمد بابر،
سری لنکا کے محکمہ موسمیات کی ڈائریکٹرمحترمہ انوشا رشنتی ورناسوریہ اور تھائی لینڈ کیقومی فلکیات ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینئرمحقق ڈاکٹر وینیزا سورپیپیٹھ شریک ہوئے تھے۔ ویب نار اجلاس میںجنوبی ایشیاء میںمون سون کی اچانک شروعات سمیت دیگر موسمی نمونوں سے وابستہ معاشرتی، معاشی اور ماحولیاتی مضمرات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا۔ مقررین نے نیپال میں مون سون کے بڑھتے ہوئے
تغیرات کے ساتھ ساتھ موسم کے دیگرانتہائی شدید واقعات کی وجہ سے آنے والی آفات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں مون سون کے بدلتے ہوئے نمونوں کے بارے میںحالیہ رجحانات اور مستقبل سے متعلق کی پیش گوئیاں بھی زیربحث رہیں۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں موسم گرما کے دوران شروع ہونے والے مون سون کے تباہ کاریاںاور اُن کے اثرات، سیلاب اور خشک سالی کی
وجہ سے سماجی اور معاشی منفی اثرات کے علاوہ بارشوں کے نمونہ جات، ٹھوس مادّے کے وہ ذرات جو فضاء میں معلق ہوتے ہیں اور قابل تجدید توانائی کے وسائل کے اثرات پر بھی بات کی گئی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے تخفیف کی حکمت عملی پر بھی غوروخوض کیا گیا۔ ویب نار اجلاس میں پیش کی جانے والی کچھ اہم سفارشات میں تحقیق پر مبنی پالیسیوں کی
تشکیل پر بھی زور دیا گیا تاکہ جنوبی ایشیائی خطے کے ماحولیاتی،سماجی اور اقتصادی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مون سون سے اچانک بدلتے موسمیاتی نمونوں کے منفی اثرات کو کم کرنے میںجدید ریسرچ سے مدد حاصل کی جا سکے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیت کو مستحکم کرنے کے لیے وسائل کی مناسب تقسیم، مون سون کے متغیررجحانات کے ساتھ موافقت کے لییجامع طریقوں پر
بھی بات ہوئی تاکہ پائیدار حل کی شراکت داری کوممکن بنانے، فروغ دینے اور علاقائی تعاون کو بڑھانے پر زور دیا گیا تاکہ ویب نار اجلاس کے طریقہ کار سے خطے میں مون سون سسٹم میں آب و ہوا پر نظر رکھی جاسکے۔علاوہ ازیںجنوبی ایشیاء کے ماہرین کے مابین علم اور تجربے کے تبادلے کو فروغ دینے میں کامیابی حاصل کرنے اور جنوبی ایشین مون سون سے وابستہ دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات پربھی زوردیا گیا۔