اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’شاہ محمود قریشی ذمہ دار ہیں ‘‘ میں لکھتےہیں کہ ۔۔۔۔۔ہم نے سعودی عرب کو حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پیش کش بھی کر دی تھی‘ یہ پیش کش حیران کن تھی کیوں کہ پاکستان اور یمن کے درمیان کسی قسم کے تعلقات ہیں اور نہ ہم حوثیوں اور نہ حوثی ہمیں جانتے ہیں لہٰذا ہم یمنی حوثیوں کو میز پر کیسے لا سکتے تھے؟
پتا چلا راجہ عباس نام کے ایک مذہبی رہنما پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے میں آتے تھے‘ یہ پیش کش انہوں نے وزیراعظم کو کی تھی اورہم نے گیند اس بنیاد پر آگے پہنچا دی‘ وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی سعودی عرب میں ”ایرانی بھیڑیا“ کے نام سے مشہور ہیں‘ یہ وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب جاتے تھے۔شاہی خاندان اس پر بھی خوش نہیں تھا‘ ایک خاتون وزیر اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر پر بھی اعتراض کیا جاتا رہا اور رہی سہی کسر ارطغرل ڈرامے نے پوری کر دی‘ ہم نے عین اس وقت یہ ڈرامہ ڈب کر کے پی ٹی وی پر دکھانا شروع کر دیا جب ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات خرابی کی انتہا کوچھو رہے تھے‘ ترکی اور قطربھائی بھائی بن چکے تھے اورسعودی عرب نے قطر سے قطع تعلق کر دیا تھا چناں چہ سعودی میڈیا نے ارطغرل کی اردو ڈبنگ کو پاکستان میں ترک کلچر متعارف کرانے کی سازش قرار دے دیا۔ہم اگر آج پچھلے دو سال کی سفارتی حماقتوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا ہو گا ہم سعودی عرب کے ساتھ ملائیشیا‘ ترکی اور ایران کے اختلافات کی تاریخ سے واقف نہیں تھے‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے مہاتیر محمد کے دن گنے جا چکے ہیں‘یہ کسی بھی وقت چلے جائیں گے‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے ایران معاشی دلدل میں دھنس چکا ہے‘ ایرانی عوام اپنے سسٹم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں اور طیب اردگان آنے والے دنوں میں بے شمار سیاسی
مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔اور ہم نے یہ بھی نہ سوچا سعودی عرب اور اس کے اتحادی یو اے ای میں ہمارے 50 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں اور ہم نے ان کے مخالفوں کی ڈوبتی کشتیوں میں چھلانگ لگا دی اور آخری کسر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو سعودی عرب کو یہ دھمکی دے کر پوری کر دی اگر او آئی سی کے وزراء خارجہ کا اجلاس نہ بلایا گیا تو ہم اپنے
دوست ملکوں (ترکی‘ ایران اور ملائیشیا) کا اجلاس پاکستان میں بلا لیں گے اور یہ بیان تابوت کا آخری کیل ثابت ہوا لیکن اب سوال یہ ہے کیا شاہ محمود قریشی نے یہ بیان اپنی مرضی سے دیا؟ نہیں‘ ہرگز نہیں!قریشی صاحب سانس بھی سوچ کر لیتے ہیں لہٰذا یہ ان کا اپنا بیان نہیں ہو سکتا‘ پھر اس بیان کے پیچھے کون ہے؟ یہ اس وقت ایک بلین ڈالر کا سوال ہے
تاہم مسافر یہ بتاتا چلے یہ بیان اس وقت داغا گیا جب آرمی چیف دس دن بعد سعودی عرب کے دورے پر جا رہے ہیں اور یہ دورہ ملک اور کشمیر دونوں کے لیے اہم ہے‘ اس نازک وقت میں یہ بیان کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے اگر پیج ایک ہے تو اب اس پر سارے ایک نہیں ہیں‘ کہیں نہ کہیں‘ کوئی نہ کوئی اب دوسری طرف بھی دیکھ رہا ہے اور یہ کون ہے؟یہ بات ابھی سامنے نہیں آئی لیکن ایک بات طے ہے
وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ کی پے درپے حماقتوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا‘ شاہ محمود قریشی نے 45 دن کا وزیراعظم بننے کے لیے سعودی عرب اور یو اے ای میں موجود 50 لاکھ پاکستانی‘ اپنی وزارت‘ پی ٹی آئی کی حکومت اور ملک چاروں کو داؤ پر لگا دیا اور ملبہ گرنا شروع ہو چکا ہے‘ اب اس کی زد میں کون کون آتاہے یہ اوپر اللہ جانتا ہے اور نیچے شیخ رشید کیوں کہ انہوں نے چار جولائی کو کہہ دیا تھا ”مائنس ون نہیں مائنس تھری ہوگا“۔