سورج گرہن کیا ہے؟نبی کریم ؐنے اس موقع پر کون سی نمازاداکی اور کیاارشاد فرمایا؟جانئے

21  جون‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سورج گرہن کے حوالے سے مختلف عقائد کے لوگ مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں تاہم مذہب اسلام نے دنیا کے دیگر تمام اہم معاملات کی طرح اس معاملے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ قرآن پاک میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند خدا کے معین کردہ راستے پر چلتے ہیں اور گردش میں ہیں۔

احادیث مبارکہ کی مستند کتابوں میں سورج گرہن کے موقع پر مخصوص نماز پڑھنے کا بھی ذکر موجود ہے جسے صلوۃ کسوف یا نمازِ خوف یا نمازِ آیات کہا جاتا ہے۔ آیات یہاں نشانیوں کے معنی میں آتا ہے۔”بخاری شریف ” میں کہا گیا ہے کہ ” حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آ گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔(صحيح البخاري (2/ 39))،دوسری جانب جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹائون کراچی کی جانب سے جاری فتاویٰ میں کہا گیا ہے کہ “یہ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے جو قادرِ مطلق اللہ تعالی سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی دیتا ہے وہی اللہ تعالی ان کو ماند کردینے پر بھی قادر ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں چاند گرہن اور سورج گرہن کے وقت ہمیں تعلیماتِ نبوی ﷺ کے مطابق اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے۔

سورج گرہن کی نماز سے متعلق جامعہ علوم اسلامیہ کے فتویٰ نمبر 143909201823 میں کہا گیا ہے کہ چاند گرہن کو “خسوف” کہتے ہیں اور چاند گرہن کے وقت دو رکعت نماز دیگر نوافل کی طرح انفراداً پڑھنا مسنون ہے، اس میں جماعت مسنون نہیں ہے، اس کا طریقہ عام نوافل کی طرح ہے، کسی بھی اعتبار سے فرق نہیں، سوائے اس کے کہ نیت “صلاۃ الخسوف” کی ہوگی۔اس کی نماز کا بھی وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے، اگر حاضرین میں جامع مسجد کا امام موجود ہو تو “کسوف” یعنی سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے، اور اس نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے۔

اگر لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے جمع کرنا مقصود ہو تو اعلان کردیا جائے، نیز اس نماز میں سورۂ بقرہ یا اس جیسی بڑی سورتیں پڑھنا یعنی طویل قرات اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے کرنا مسنون ہے، اور اس نماز میں قرات آہستہ آواز سے کی جائے گی، نماز کے بعد امام دعا میں مصروف ہوجائے اور سب مقتدی آمین آمین کہیں، یہاں تک سورج گرہن ختم ہوجائے۔ہاں اگر ایسی حالت میں سورج غروب ہوجائے یا یا کسی نماز کا وقت ہوجائے تو دعا ختم کرکے وقتی فرض نماز میں مشغول ہوجانا چاہیے۔اسی طرح مکروہ اوقات میں سورج گرہن ہوجائے تو یہ نماز نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ صرف دعا کرلی جائے ۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…