’’ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘زرداری صاحب ووٹ دے دیں تو جعلی اکائونٹس کے چالیس ارب روپے معافشریف اگر یہ کام کریں تو دنیا کے پانچ براعظموں میں پھیلی تمام جائیدادیں ان کی ہوئیں چھ ماہ کے اندر اندر دونوں پارٹی سربراہوں کو ایک اور بڑا موقع مل گیا ، دھماکہ خیز تفصیلات

6  مئی‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار رئوف کلاسرا اپنے کالم ’’اونٹ کی زبان اور لومڑی کا انتظار‘‘ میں لکھتےہیں کہ ۔۔۔ابھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ہائوس آف شریف اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیوں کی حمایت اس شرط پر کرنے کو تیار ہے اگر ان کے خلاف احتساب کے سب مقدمات ختم کر دیے جائیں۔ شریف خاندان خوش قسمت رہا ہے کہ ہر دفعہ انہیں کوئی نہ کوئی ڈیل مل ہی جاتی ہے اور غالباً اب بھی مل جائے گی۔

پچھلے سال ایک اور ترمیم لائی گئی تھی‘ جس کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی۔ وہی پارٹی جو ‘ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے مار مار کر تھکتی نہیں تھی وہ بھی بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈال رہی تھی اور بدلے میں اپنے جیل میں بند چند ساتھیوں کی ضمانت پر راضی ہو گئی۔سیاستدانوں کی ایک خوبی ہوتی ہے کہ یہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صبر کرنا جانتے ہیں۔ اس دفعہ تو شریف اور زرداری زیادہ خوش نصیب نکلے ہیں کہ انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور چھ ماہ کے اندر اندر انہیں ایک اور بڑا موقع مل گیا ہے اپنے خلاف مقدمات ختم کروانے کا۔ زرداری صاحب ووٹ دے دیں تو جعلی اکائونٹس کے چالیس ارب روپے معاف۔ شریف ووٹ دے دیں تو دنیا کے پانچ براعظموں میں پھیلی تمام جائیدادیں ان کی ہوئیں۔ وہی بات کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔کیا فرق پڑتا ہے‘ پھر دائو لگے گا تو پھر یہی ترامیم کرا لیں گے۔ پہلے مقدمات تو ختم کرائیں۔ جو اربوں کے سکینڈلز ہیں انہیں سیٹل کریں۔ کل کو یہ سب کچھ رات کے اندھیرے میں سیٹل کرنے کے بعد میڈیا کو آ کر بتائیں گے کہ دیکھا ہمارے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔ پوری قوم بھی انہی سیاستدانوں کی ہم نوا ہو جائے گی کہ دیکھا میڈیا جھوٹ بولتا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ کتنی خفیہ ملاقاتوں اور لین دین کے بعد یہ سب کچھ طے ہوا ہے۔ سب کچھ عوام کی جیب سے لوٹا اور وہی عوام ان کی بے گناہی کے نعرے لگائیں گے اور الٹا میڈیا پر پل پڑیں گے۔اب آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ

ان حکمرانوں یا سیاستدانوں پر قائم کرپشن کے مقدمات میں انہیں سزا کیوں نہیں ہوتی اور مقدمات لٹکتے کیوں رہتے ہیں۔ یہ مقدمات بارگین چپ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جو ذرا پر پرزے نکالنے کی کوشش کرتا ہے‘ مقدمہ تیار۔ اگر ان کی مرضی کا رقص کرنے پر تیار ہو جائے تو فوراً ڈیل تیار۔اور وہی لوگ اندر کھاتے ڈیل کرنے کے بعد وکٹری نشان بنا کر بڑے فخر سے اگلے روز ٹی وی چینلز پر منہ چڑا رہے ہوتے ہیں کہ

کیا کر لیا؟ کیا ثابت ہوا؟ انہیں پتہ ہے ‘جنہوں نے ثابت کرنا تھا وہی تو ڈیل کر کے جیل سے نکال کر باہر لائے ہیں۔اگر سیاستدانوں نے حکمرانی کی ذمہ داری کو دل سے سمجھا ہوتا اور اس کے بوجھ کی نوعیت کو جانا ہوتا تو آج ان کے بازو مروڑ کر ان سے اپنی مرضی کی ترامیم نہ کرائی جا رہی ہوتیں۔ یہ اٹھارہویں ترمیم کے فوائد صوبوں میں نچلے لیول پر لے جا کر عام لوگوں کی زندگیاں بدلتے تو آج وہی عوام اس ترمیم کی محافظ بن جاتے‘

لیکن اس ترمیم کو مال بنانے اور ذاتی بادشاہت کے لیے استعمال کیا گیا‘ اسی لیے جب اٹھارہویں ترمیم پر پرانا لین دین شروع ہو رہا ہے تو ایک بھی بندے کو دلچسپی نہیں اور نہ ہی پتہ ہے کہ یہ اٹھارہویں ترمیم کس بلا کا نام ہے اور اس پر یہ ڈرامہ کیوں رچایا جا رہا ہے ‘کیونکہ لوگوں تک اس ترمیم کے اثرات ان دس برسوں میں نہیں پہنچے۔بہرحال ہر کسی کو اس کھیل میں کچھ نہ کچھ درکار ہے اور سب اپنے ذاتی مفادات کے لیے

کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ جو کل تک اٹھارہویں ترمیم کے حق میں تھے آج وہ اقتدار میں پہنچ کر اس ترمیم کو ختم کرنے کے لیے خفیہ ڈیل پر کام کر رہے ہیں کیونکہ حکمران جماعت سے اوپر جو اشرافیہ بیٹھی ہے‘ جو بقول عمران خان صاحب ان کی مرضی کے بغیر لاک ڈائون لگا دیتی ہے‘ وہ یہی چاہتی ہے‘ کیونکہ اسے لگتا ہے اس ترمیم سے فیڈریشن کمزور ہوئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس طاقتور اشرافیہ کا اپنا کنٹرول کمزور ہوا ہے۔

وہ دس سال بعد اپنا کنٹرول واپس چاہتے ہیں‘ چاہے پیار سے کچھ دے دلا کر یا باوز مروڑ کر۔اقتدار کے اونٹ میں سے ہر ایک کو پائو بھر گوشت چاہیے۔ اب پورا اونٹ ذبح ہو یا آدھا‘ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی پارٹیاں بھی لومڑی کی طرح اونٹ کی لٹکتی لمبی زبان کے نیچے گرنے کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ وہ اسے چبا سکیں۔ اب آپ کہیں گے‘ اونٹ کی زبان تو نہیں گرے گی۔ میرا خیال ہے آپ شاید روایتی اونٹ

اور لومڑی کی کہانی پڑھے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں اس اونٹ کی زبان واقعی گرتی ہے اور لومڑیاں اس زبان پر لپک پڑتی ہیں۔ پاکستان میں جہاں جمہوریت سے لے کر حکمرانی‘ حکمران‘ سیاستدان اور اشرافیہ سب کچھ نرالا ہے۔ یہاں کے اونٹ‘ ان کی لٹکتی زبانیں اور لومڑیاں بھی نرالی ہیں۔ جو کام قصہ کہانیوں میں صدیوں سے نہیں ہوتا وہ پاکستان میں ہوتا ہے اور اصل میں ہی ہوتا ہے۔ آپ دیکھتے جائیں۔ لین دین کا کھیل شروع ہو چکا‘ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے کہ چھ ماہ کے اندر ان سیاسی لومڑیوں کو ایک دفعہ پھر ایک ترمیمی اونٹ مل گیا ہے اور اس کی زبان بھی ایک دفعہ پھر لٹکی ہوئی ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…