پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

میری تنخواہ 14 سو روپے تھی اور کام چپڑاسی کا تھا‘ میں سینئرز کے لیے چائے لاتا تھا‘ کولر سے پانی لا کر دیتا تھا اور ان کے کندھے بھی دباتا،میرے پاس سائیکل بھی نہیں تھی‘ میں روز چھ کلو میٹر پیدل چل کر دفتر پہنچتا تھا،مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوسری نوکری بھی کی ،پیدل زندگی سے لگژری لائف تک کیسے پہنچا ؟ایک اللہ پھر بھروسہ دوسرا ۔۔۔جاوید چودھری نے کامیابی کا اصول سامنے رکھ دیا

datetime 30  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میرے والد مجھے وکیل بنانا چاہتے تھے یا پھر سی ایس پی دیکھنا چاہتے تھے لیکن میں صحافی بننا چاہتا تھا‘میں نے لاء کی تعلیم درمیان میں چھوڑی‘ پنجاب یونیورسٹی سے بھاگا اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جرنلزم میں داخلہ لے لیا‘ یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی‘ گولڈ میڈل لیا اور 1992ء میں نوائے وقت لاہور میں جاب کر لی‘ میری تنخواہ 14 سو روپے تھی اور کام چپڑاسی کا تھا‘ میں سینئرز کے لیے چائے لاتا تھا‘ کولر سے پانی لا کر دیتا تھا اور ان کے کندھے بھی دباتا تھا۔

میری کل صحافت سلگ رجسٹر اور پروف ریڈنگ تک محدود تھی‘ والد خوش حال تھے لیکن وہ مجھ سے ناراض تھے چناں چہ میرا کل اثاثہ 14 سو روپے تھے‘ میں ہزار مرتبہ تسلیم

کر چکا ہوں میرے پاس سائیکل بھی نہیں تھی‘ میں روز چھ کلو میٹر پیدل چل کر دفتر پہنچتا تھا‘ کمرے کا کرایہ 18 سو روپے تھا‘ چار سو روپے کا ڈیفسٹ تھا‘ کھانا پینا اس کے علاوہ تھا لہٰذا میں خسارہ پورا کرنے کے لیے دوسری نوکری پر مجبور ہوگیا‘ میں دن کے وقت نوائے وقت میں کام کرتا تھا اور شام کے وقت مون ڈائجسٹ میں ادیب جاودانی مرحوم کے لیے فیچرز لکھتا تھا‘ وہ مجھے ہزار روپے دیتے تھے اور یوں میں کھانے‘ پینے اور رہائش کے قابل ہوجاتا تھا‘ مجھے اس مشقت نے سبق دیا باعزت اور خوش حال زندگی کے لیے انسان کے پاس کام‘ کام اور کام کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا لہٰذا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں نے کسی بھی زمانے میں تین سے کم کام نہیں کیے‘ آپ میرے 28 سال پرانے کولیگز سے پوچھ لیں یہ میرے نظریات‘ میرے لائف سٹائل اور میرے مزاج پر اعتراض کر سکتے ہیں لیکن میں نے پیدل زندگی سے لگژری لائف تک جتنی محنت کی یا میں آج بھی جتنی مشقت کرتا ہوں ان میں سے ہر شخص اس کی گواہی دے گا‘ لوگ مجھ سے ٹائم مینجمنٹ اور وقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال سیکھتے ہیں‘ میں اعتراف کرتا ہوں میرے پاس اللہ اور محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔
میرے پاس آج بھی اللہ اور محنت کے سوا کچھ نہیں لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے جتنی ایڑیاں رگڑنا پڑیں‘ مجھے زندگی کے توے پر جتنا بیٹھنا پڑا یہ بھی میں جانتا ہوں یا پھر میرا اللہ تاہم مجھے کوئی ملال‘ کوئی تاسف نہیں کیوں کہ باعزت‘ خوش حال زندگی کی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ قیمت ہر انسان کو دینی پڑتی ہے‘ میں نے یہ دی مگر اللہ نے مجھ پر اس قیمت سے زیادہ رحم فرمایا‘ یہ ہے اس جھوٹے میڈیا کے ایک جھوٹے ورکر کی جھوٹی داستان۔

اس جھوٹے ورکر کی داستان جو 15 سال فرش پر سوتا رہا‘ جو 30 سال سے روز لکھ رہا ہے اور جس کی زندگی میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جس میں اس نے کمر سیدھی کرنے سے پہلے کام ختم نہ کیا ہو اور اگلے دن کے کام کا میز پر ڈھیر نہ لگایا ہو۔میں میڈیا کا وکیل نہیں ہوں‘ آپ اسے کوئی بھی گالی دے دیں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ یہ ضرور یاد رکھیں اس میڈیا میں چند ایسے ضرور ہوں گے جنہوں نے مجھ سے بھی زیادہ محنت کی‘ جنہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر گھونسلا بنایا اور جو مرنے تک اس گھونسلے میں تنکے جوڑتے رہیں گے‘مجھے خطرہ ہے آپ کہیں گالی دیتے ہوئے ان لوگوں کی دل آزاری نہ کر بیٹھیں۔

آپ کہیں ان کی بددعا نہ لے بیٹھیں‘ دعویٰ صرف اللہ کی ذات اور پھر ہمارے علماء کرام کی منہ پر سجتا ہے لیکن ڈرتے ڈرتے‘ اللہ سے معافی مانگتے ہوئے ایک دعویٰ میں بھی کرنا چاہتا ہوں‘ دنیا میں میڈیا کے تین ورژن ہیں‘ پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا‘ میں شاید گنتی کے چند میڈیا ورکرز میں شامل ہوں جو تینوں میڈیم میں کام کر رہے ہیں‘ میں ہفتے میں چار کالم لکھتا ہوں‘ چار سیاسی پروگرام کرتا ہوں اور سوشل میڈیا کی تین کمپنیوں کا نگران بھی ہوں‘ آپ گوگل کر کے دیکھ لیں آپ کو دنیا بھر کی میڈیا انڈسٹری میں ایسے پاگل نہیں ملیں گے۔

میڈیا کی تین گیندیں اور چار بزنسز کی چار گیندیں کل سات گیندیں ہوا میں اچھالنا اور پکڑنا آسان کام نہیں ہوتا‘ اس کے لیے ”سپر جھوٹا“ ہونا پڑتا ہے لہٰذا میں تجربے کی بنیاد پر میڈیا کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں ہوں اور میں وہ عرض کر رہا ہوں۔میڈیا کی تین قسمیں ہیں‘ پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل‘ یہ تینوں مزید تین حصوں میں تقسیم ہیں‘ مشینری‘ سپورٹنگ سٹاف اور چہرے‘ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے مشینیں جھوٹی نہیں ہوتیں‘ پرنٹنگ پریس‘ مائیک‘ کیمرے‘ سٹوڈیو‘ لائیٹس اور فیس بک‘ ٹویٹر اور یوٹیوب یہ صرف مشینیں ہیں۔

یہ جھوٹ یا سچ دونوں نہیں بول سکتیں‘ دوسرے نمبر پر سپورٹنگ سٹاف آتا ہے‘ یہ لوگ چوکی دار سے ایڈیٹر اور ریسپشنسٹ سے سینئر پروڈیوسر تک ہوتے ہیں‘ یہ میڈیا کا نوے فیصد ہیں‘ یہ بھی سچ اور جھوٹ نہیں بول سکتے کیوں کہ ان کا کام صرف خبروں اور مٹیریل کو پراسیس کرنا ہوتا ہے اور تیسرے نمبر پر میڈیا کے فیس آتے ہیں‘ یہ وہ رپورٹر ہوتے ہیں عوام جن کے نام اور چہرے دیکھتے اور پڑھتے ہیں‘ یہ کالم نگار‘ رپورٹرز‘ نیوز اینکرز اور پروگراموں کے میزبان ہوتے ہیں۔

میں رپورٹرز اور نیوز اینکرز کو بھی سائیڈ پر کر دیتا ہوں کیوں کہ رپورٹر کی خبر اگر غلط ثابت ہو جائے تو وہ نوکری سے فارغ ہو جاتا ہے‘ نیوز اینکرز صرف خبریں پڑھتے ہیں‘ یہ ایک لفظ بھی اپنی طرف سے نہیں بولتے لہٰذا یہ بھی بے گناہ ہیں‘ پیچھے رہ جاتے ہیں کالم نگار اور پروگراموں کے میزبان‘ یہ گنتی کے چند لوگ ہیں‘ملک میں دس بڑے اینکرز ہوں گے اور اتنے ہی کالم نگار‘ یہ وہ لوگ ہیں جو سچ اور جھوٹ بول سکتے ہیں لیکن یہ لوگ کل میڈیا کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں 99فیصد میڈیا بے قصور ہے‘ صرف ایک فیصد گندی مچھلیاں ہیں۔

آپ بے شک ان گندی مچھلیوں کو الگ کریں اور ان کی مرمت شروع کر دیں لیکن آپ مرمت سے پہلے کم از کم گناہ گار اور جھوٹے کا فیصلہ تو کر لیں‘ اللہ تعالیٰ بھی حشر کے دن فرشتوں کی رپورٹ پر فیصلہ نہیں کرے گا‘ وہ بھی ہم اور ہمارے اعضاء سے پوچھے گا اور ہم باقاعدہ اپنا مقدمہ لڑیں گے لیکن آپ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے ہیں کہ آپ گناہ گاروں اور بے گناہوں کو الگ کیے بغیر سب کی مرمت کر رہے ہیں‘ آپ ہیں کون؟ آپ کے سامنے دس بیس پچاس اینکرز اور کالم نگار موجود ہیں۔

آپ بتائیں کس نے کب جھوٹ بولا اور اس جھوٹے کو میڈیا کے کسی شخص نے سپورٹ کیا‘ ڈاکٹر شاہد مسعود ہمارے کولیگ تھے‘ یہ جنوری 2018ء میں زینب کے قاتل عمران علی کے 37فارن بینک اکاؤنٹس کا غلط دعویٰ کر بیٹھے‘ان کے پروگرام پر تین ماہ کے لیے پابندی لگ گئی‘ پورے میڈیا میں کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا‘ یہ پی ٹی وی کرپشن کیس میں گرفتار ہوئے‘ جیل گئے‘ کسی نے اس وقت بھی ان کی مدد نہیں کی‘ میڈیا کا کوئی کارکن آج بھی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تاہم یہ درست ہے میڈیا سے متعلق چند لوگوں نے حکومتیں جوائن کیں مگر وہ لوگ آج کہاں ہیں؟ ۔

میڈیا نے ان کو ”ڈس اون“ کر دیا‘ وہ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں الیکٹرانک میڈیا میں دو قسم کے اینکرز ہیں‘ جرنلسٹ اینکرز اور نان جرنلسٹ اینکرز‘ آپ کسی جرنلسٹ اینکر پر انگلی رکھ کر بتائیں اس نے فلاں وقت فلاں جھوٹ بولا تھا یا اس نے مائیک اور کیمرے کے ذریعے فلاں کو بلیک میل کیا تھا؟آپ کوئی نام لیں میڈیا انڈسٹری آ پ کا ساتھ دے گی تاہم یہ سچ ہے نان جرنلسٹ اینکرز کی وجہ سے میڈیا کو کئی بار سبکی اٹھانی پڑی لیکن کسی صحافی نے ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیا۔

باقی رہ گیا میڈیا کا کنٹری بیوشن تو تازہ ترین تاریخ میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سکینڈل ہو‘ پاناما سکینڈل ہو‘ فارن فنڈنگ کیس ہو یا پھر آٹا اور چینی سکینڈل کی رپورٹ ہو‘ قوم‘ حکومت اور عدالتوں کو یہ تمام کیچ میڈیا سے ملے تھے‘ کرونا کے بارے میں بھی میڈیا نے حکومتوں کو بتایا تھا‘ آپ آج دن میں دس دس مرتبہ ہاتھ دھوتے ہیں یا لوگوں سے دور رہتے ہیں تو یہ اس جھوٹے میڈیا کی مہربانی ہے جب کہ علماء کرام تو آج بھی کرونا کو یہودونصاریٰ کی سازش قرار دے رہے ہیں۔

یہ آج سوا دو لاکھ ہلاکتوں کے باوجود اسے نہیں مان رہے‘ یہ تو تفتان اور رائے ونڈ کے ذریعے اسے پورے ملک میں پھیلاتے رہے تھے چناں چہ میڈیا پر نظر آنے والے تیس چالیس پچاس لوگ جھوٹے ہوں گے لیکن آپ کم از کم قوم کو ان کے جھوٹ تو بتا دیں‘ ان کا جرم تو دنیا کے سامنے رکھ دیں‘ آپ میں اور چنگیز خان میں کوئی فرق توہونا چاہیے‘ وہ بھی لوگوں کو لٹکاتا پہلے تھا اور جرم بعد میں بتاتا تھا اور آپ نے بھی یہ کام شروع کر دیا۔باقی رہ گیا سائیکل سے فائیو سٹار لگژری زندگی تک کا سفر تو یہ حقیقت ہے میڈیا کے ایک فیصد لوگ خوش حال ہوئے لیکن اس خوش حالی کے لیے انہیں تیس سال لگے۔

اور تیس سال کتنا بڑا عرصہ ہوتا ہے آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ تیس برسوں میں ریڑھیاں لگانے والے کھرب پتی بن گئے‘ ٹھیکے دار اور بیوپاری بزنس ٹائی کون ہو گئے اور اے ایس پی‘ اسسٹنٹ کمشنر اور وکیل ملک میں آئی جی‘ فیڈرل سیکرٹری اور چیف جسٹس بن گئے‘ بیس پچیس تیس سال اتنا بڑا عرصہ ہوتا ہے کہ اس میں ایک ریٹائر کرکٹر ملک کا وزیراعظم بن جاتا ہے اور کالج کا ڈراپ آؤٹ سٹوڈنٹ مولانا طارق جمیل‘ وقت اور محنت کیڑوں کو بھی نواز دیتی ہے۔

یہ مٹی اور گوبر کا مقدر بھی بدل دیتی ہے جب کہ ہم تو انسان ہیں‘ لوگ ہم سے زیادہ محنت کریں گے یہ ہم سے بھی آگے نکل جائیں گے تاہم نئے کام یاب ہونے والے یہ ضرور یاد رکھیں یہ بھی جب کام یاب ہوں گے تو لوگ ان کو بھی جھوٹا‘ درباری اور لفافہ ضرور کہیں گے‘ یہ ان کی کام یابی کی قیمت ہو گی اور ناکام اور چھوٹے معاشروں میں کام یاب لوگوں کو یہ قیمت ہر صورت چکانا پڑتی ہے‘ آپ اگر یہ چکا سکتے ہیں تو آگے بڑھیں ورنہ پتھر اٹھائیں اور اپنے سے آگے چلنے والوں کو مار مار کر زندگی گزار دیں‘ آپ کو کوئی برا نہیں کہے گا‘ لوگ آپ کے لیے تالی بجائیں گے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…