اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے جی آ ئی ڈی سی سیس کیس میں اکاؤنٹنٹ جنرل اور فنانس کے افسران کی جانب سے عدالتی سوالات کے جوابات نہ دینے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے انٹر سٹیٹ گیس سے منصوبوں کی مکمل تفصیلات تحریری طور پر طلب کرلیں۔ جمعرات کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر فنانس ڈویژن اور اکاؤنٹنٹ جنرل آ فس کے افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
اکاونٹنٹ جنرل اور فنانس کے افسران کی جانب سے عدالتی سوالات کے جوابات نہ دینے پر سپریم کورٹ برہم ہوگئی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ گیس پائپ لائن تعمیر کیلئے کتنا خرچہ درکار ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ اب تک منصوبے پر کتنا خرچہ ہوا۔ جوائنٹ سیکرٹری فنانس نے کہاکہ ابھی تک منصوبوں پر تھوڑا خرچہ ہی ہوا ہے۔جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ جے آ ئی ڈی سی سیس کا پیسہ ٹیکس کولیکشن میں کیسے شامل ہو گیا۔ جوا ئنٹ سیکرٹری فنانس نے کہاکہ جے آ ئی ڈی سی کی رقم غلطی سے ٹیکس کولیکشن میں گئی،تحقیقات جاری ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر افسران تفصیلات نہیں جانتے تو پھر افسران سپریم کورٹ کیا کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عدالتی استفسار پر روٹین کے جوابات دئے جا رہے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ انہی وجوہات کی بنا پر بجٹ خسارہ ہوتا ہے،دکاندار کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ لیا لینا ہے کیا دینا ہے۔دوران سماعت عدالت کی جانب سے سیس کی مزید رقم کی وصولی رولنے کا عندیہ دیا گیا۔جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ اگر تمام درخواست گزار راضی ہوں تو سیس کی وصولی یہاں روک دیتے ہیں،جب منصوبے شروع ہوں تو حکومت مزید رقم لے سکے گی۔ انڈسٹری کے وکلا کی جانب سے مزید رقم کی وصولی منصوبوں کے شروع ہونے تک روکنے پر آمادگی کا اظہار کیاگیا۔حکومت کی جانب سے رقم وصولی روکنے پر اعتراض اٹھایاگیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ذیادہ تر انڈسٹری نے تو یہ رقم صارفین سے وصول کی ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ 9 سال میں حکومت نے جی آ ئی ڈی سی سیس رقم کے استعمال پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ وکیل نے کہاکہ پیسہ کہاں خرچ ہوا اسکا کوئی حساب نہیں،عدالتی حکم کے بعد اب پارلیمنٹ میں سیس رقم کی تفصیلات فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ٹاپی منصوبے پر میری معلومات کے مطابق بھارت ترکمانستان اور ایران نے عوام سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر منصوبہ دس سال شروع نہیں ہوتا تو کیا پیسہ یونہی پڑا رہے گا،
منصوبے کب شروع ہوں گے کسی کو معلوم نہیں۔ دوران سماعت انٹر سٹیٹ گیس کے سی ای او عدالت میں پیش ہوئے اور بتایاکہ پاک ایران گیس منصوبے پر پابندیوں کے باعث کام رکا ہوا ہے،پابندیاں ختم۔ہوتی ہی دو سال میں پاک ایران منصوبہ مکمل ہو جائے گا،ٹاپی منصوبہ 2023 تک مکمل ہو جائے گا،ٹاپی منصوبے پر مجموعی طور پر 10 بلین ڈالرز خرچ ہوں گے۔ دو ران سماعت عدالت نے انٹر سٹیٹ گیس سے منصوبوں کی مکمل تفصیلات تحریری طور پر طلب کرلیں۔ بعد ازاں کیس کی مزید سماعت سترہ فروری تک ملتوی کر دی گئی۔