لاہور(این این آئی) جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولا نا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اس وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ہماری تحریک کا حصہ نہیں ہیں،اگر آناچاہیں توخوش آمدیدکہیں گے لیکن خود انہیں دعوت نہیں دیں گے،آزاد ی مارچ کے نتائج حاصل میں ہونے میں تاخیر میں ان سیاسی فیصلوں کا بڑا عمل دخل ہے جو بڑی جماعتوں کے ہاتھوں سرزد ہوئے ہیں،حکومت گھر جاچکی ہے اور اس وقت کوئی حکومت نہیں،اس وقت کچھ اور قوتوں کی رٹ ہے،
ہماری تحریک کا نتیجہ ہے کہ حکومت کے اتحاد میں دڑاڑیں پڑ چکی ہیں جو ہمارے مقصد کی جانب پیشرفت کی علامت ہے، چوہدر ی برادران سے کہوں گا ان کے پاس میرے حوالے سے جوامانت ہے اس کو واشگاف کردیں،مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ آناچاہیں تو خوش آمدیدکہیں گے لیکن خود انہیں دعوت نہیں دیں گے،انہوں نے رابطہ کیا تو بات ہوگی کیونکہ ہم نے دروازے بند نہیں کئے،23فروری کو کراچی میں جلسہ عام، یکم مارچ کو قومی کانفرنس،19مارچ کو لاہور میں آزادی مارچ کے حوالے سے بھی بات ہوئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفد کے ہمراہ جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ ملاقات میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک سمیت ملک کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال اور آئندہ رابطوں بارے تبادلہ خیال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت نے عوام کا جینا دوبھرکردیاہے،عام آدمی بجلی کے بلوں اور مہنگائی کی چکی میں پس چکی ہے، عوام خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں او راپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم عوام کے شانہ بشانہ ہیں او ر لائق اور با صلاحیت اور حقیقی نمائندہ حکومت کے قیام کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑی جماعوں کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن منقسم ہوئی ہے اور جب اپوزیشن تقسیم ہوتی ہے اس کا فائدہ حکومت اٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی صفوں میں کھڑے ہیں، ہم زندہ دلان لاہور کی سر زمین پر آنا چاہتے ہیں،
ہم عوام کی آواز اور امید بن کر آنا چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ عوام کی آواز زندہ رہے اورگونجتی ہوئے ناجائز حکمرانوں کو للکارتی رہے،ہم حقیقی منزل کی جانب ایسے ہی سفر جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 23فروری کو کراچی میں جلسہ عام ہوگا،یکم مارچ کو اسلام آباد میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ شخصیات کی قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ ناجائز حکمرانوں کے خلاف تحریک کو آگے بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت گھر جا چکی ہے اور اب صرف خلاء ہے،
آج ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے، آج حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے بلکہ رٹ کچھ او رقوتوں کی ہے، جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم منتخب ہیں ان کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص بیماری کی بنیاد پر علاج کے لئے باہر جانا چاہتا ہے تو میں اسے سیاسی کیس نہیں بنانا چاہوں گا۔ آزادی مارچ کے نتائج میں اگر کوئی تاخیر ہوئی ہے تویہ اس میں ان سیاسی جماعتوں کا بڑا عمل دخل ہے جو ان کے ہاتھوں سر زد ہوئے ہیں۔ہماری تحریک کی وجہ سے حکومت کے اتحاد میں دڑاڑیں پیدا ہو گئی ہیں جو ہمارے مقصد کی جانب پیشرفت کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ابھی اپوزیشن سے جلسوں اور کنونشنزکے لیے رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے وزراء کے بیانات بارے سوال کے جواب میں کہا کہ میں پارلیمنٹ کونہیں مانتا،حکومتی وزرا ء کے بیان پر کیاکہوں؟،میں چوہدری برادران سے کہوں گا کہ ان کے پاس میرے حوالے سے جوامانت ہے اس کو واشگاف کردیں،
چوہدری پرویز الٰہی سے کہتا ہوں کہ اب وہ کسے امانت کہتے ہیں وہ راز کھول دیں،کوئی راز کی بات تھی، تین فوری استعفے اور تین ماہ میں انتخابات کا وعدہ کر کے دھرنا ختم کروایا گیا تھا،چوہدری برادران ٹھیک کہتے ہیں ان کی بات نہیں سنی جارہی،ان کے اختلافات حکومت سے نظرآرہے ہیں،چوہدری برادران پہلے اپنی پوزیشن تبدیل کریں پھر ان کو جلسوں میں مدعو کرنے کا سوچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لال مسجد کی تاریخ ایک بارپھردوبارہ دہرائے جانے کی خبریں آرہی ہیں،حکومت اورانتظامیہ دونوں سے کہتے ہیں کہ معاملے کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرادری سے کوئی رابطہ نہیں ہواہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اس وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ہماری تحریک کا حصہ نہیں ہیں تاہم اگر انہوں نے رابطہ کیا تو بات ہوگی، دروازے بند نہیں کئے،مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی آناچاہیں تو خوش آمدید کہیں گے لیکن خود انہیں دعوت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ساجد میر صاحب کے ساتھ مشاورتی مجلس تھی جس کے دوران اس ملک میں ایک آئینی اور منتخب حکومت کے قیام اور 19 مارچ کو لاہور میں آزادی مارچ کے بڑے اجتماع پر مشاورت ہوئی ہے۔