اسلام آباد( آن لائن ) ایک جانب حکومت ٹیکس نیٹ کو توسیع دے کر زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب کچھ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں، غیر ملکی سفرا اور کچھ ممالک کے فوجی اہلکاروں کی جانب سے لگژری گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد کی سہولت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے کا دھوکا دیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے یہ معاملہ وزارت خارجہ کے سامنے اٹھایا اور درخواست کی کہ تمام غیر ملکی سفارتخانوں، بین الاقوامی این جی اوز کو خط لکھ کر ان کا معیار معلوم کیا جائے جس کے تحت پاکستان میں ڈیوٹی ادائیگی سے مستثنٰی سفیروں اور دیگر غیر ملکیوں کے استعمال کے لیے لگژری گاڑیاں درآمد کی جاتی ہیں۔خط میں وزارت خارجہ کو آگاہ کیا گیاکہ کچھ سفارتی مشنز اور سفارتخانے اپنی ضرورت سے زائد گاڑیاں درآمد کر کے ڈیوٹی فری سہولت کا غلط استعمال کررہے ہیں۔انہوں نے وزارت پر زور دیا کہ سفارت خانوں، سفارتی مشنز اور معزز اراکین کے لیے گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد کے موجودہ طریقہ کار پر نظر ثانی کی جائے۔ذرائع کے مطابق ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے بچانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ گاڑیاں سفیروں، بین الاقوامی این جی اوز کے نمائندوں یا فوجی اہلکاروں، مختلف ممالک کے اتاشیوں نے درآمد کیں لیکن ان کے اصل مالکان پاکستانی ہیں۔ایف بی آر کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ گاڑیاں استعمال کے لیے غیر مجاز افراد کو دی گئیں اور کچھ عرصے بعد انہیں فروخت کردی گئیں‘۔
واضح رہے کہ غیر ملکی سفیر، بین الاقوامی این جی اور کے نمائندے اور مختلف ممالک کے فوجی عہدیداران کو درآمدی ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل ہے اور جو گاڑی وہ درآمد کرتے ہیں اس پر 3 سال تک سفارتی رجسٹریشن نمبر استعمال ہوتا ہے۔چونکہ 3 سال سے پرانی گاڑیوں پر درآمدی ڈیوٹی عائد نہیں ہوتی لہٰذا اس عرصے کے بعد گاڑیوں ان کے اصل مالکان (پاکستانیوں) کے نام منتقل کردی جاتی ہیں۔مثال کے طور پر لیکسز ایس یو وی کی قیمت ایک کروڑ روپے ہے اور اگر کوئی پاکستانی اسے درآمد کرے گا تو اسے 3 کروڑ روپے ڈیوٹی ادا کرنا ہوگی لیکن یہ رقم اس صورت بچائی جاسکتی ہے ۔
جب گاڑی ایسا شخص درآمد کرے جسے درآمدی ڈیوٹی سے استثنٰی حاصل ہو۔اس طریقہ کار میں درآمد کنندہ (غیر ملکی سفیر/ملٹری اتاشی) کو مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ گاڑی کے مالک (پاکستانی) کو مارکیٹ کی قیمت سے سستی گاڑی مل جاتی ہے مثلاً لیکسز کی قیمت 4 کروڑ روپے بنتی ہے لیکن اس گھپلے سے پاکستانی مالک کو وہ ڈیڑھ سے 2 کروڑ روپے میں مل جاتی ہے۔اسلام آباد رجسٹریشن اتھارٹی کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق اس دھوکہ دہی میں 11 ستمبر 2001 کے بعد سے اضافہ ہوا جب حکومت نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر سفیروں کو کور نمبر پلیٹس (جو کیو ایل، کیو ایم اور کیو این سے شروع ہوتی ہیں) کے استعمال کی اجازت دی۔
چنانچہ اب کاریں غیر ملکی سفیر درآمد کرتے ہیں اور پاکستانی مالکان اسے کور نمبر پلیٹ کے ساتھ چلا کر غلط استعمال کرتے ہیں۔ذرائع کے مطابق کچھ معاملات میں سفیروں کی جانب سے ’تعیناتی کا جعلی خط‘ جاری کیا جاتا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے گاڑی رکھنے والا پاکستانی، سفارت خانے کا ڈرائیور ہے۔اس دھوکہ دہی کے تحت درآمد کی جانے والی گاڑیوں میں لیمبرگینی، کیمرو، ہمرز، نسان جی ٹی آرز(آر 35) رولز رائس، لیکسز، بینٹلے، پورشے اور بی ایم ڈبلیو شامل ہیں۔