اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’آج کے بعد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ کیا ان کی یہ سزا ہے کہ یہ آپ پر ٹرسٹ کرتے رہے‘ یہ تیسری مرتبہ بھی آپ کے وعدوں پر یقین کر بیٹھے اور یہ سمجھتے رہے آپ بدل چکے ہیں‘ آپ اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن آپ 2000ءکی طرح اس بار پھر اپنے ساتھیوں کو
جیلوں اور عدالتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر لندن جا بیٹھے اور آپ نے چند ماہ کے آرام کے لیے حکومت کے سامنے اپنے سارے گھٹنے ٹیک دیے‘دوسرا میاں نواز شریف کی طرف سے حلف لینا بھی انتہائی افسوس ناک تھا۔قائد کے سامنے پارٹی کی سینئر ترین قیادت بیٹھی تھی‘ یہ صرف دس لوگ تھے‘ ان دس لوگوں سے حلف لینے کا مطلب تھا میاں نواز شریف کو اپنی سینئر ترین قیادت پر بھی یقین نہیں‘ یہ اپنے بھائی میاں شہباز شریف اور سمدھی اسحاق ڈار پر بھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں چناں چہ پھر آپ کو کس پراعتماد ہے؟ مجھے حلف لینے والوں پر افسوس نہیں ہوا‘ حلف دینے والوں پر ہوا‘ ان میں سے کسی ایک شخص کو بھی انکار کی جرات نہیں ہوئی‘ کوئی ایک تو ہوتا جو میاں نواز شریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا‘ جناب ہم تیس تیس سال سے آپ کے ساتھ ہیں‘ ہمارے دن ہوں یا رات آپ کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہیں۔ہم نے 1993ء‘ 1999ءاور 2018ءمیں بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن ان تمام تر وفاداریوں‘ جیلوں‘ مقدموں اور سڑکوں پر پھینٹے کے باوجود آپ کو ہم پر اعتماد‘ ہم پر یقین نہیں‘ کوئی ایک تو بولتا مگر افسوس سب نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور قرآن مجید پر رکھ دیا‘ مجھے میاں نواز شریف کی مفاد پرستانہ سیاست اور ان نو لوگوں کی غلامی پر گھن آ رہی ہے‘ یہ کیا لوگ ہیں اور یہ کیا کر رہے ہیں؟ چودھری برادران میاں نواز شریف کے ساتھی تھے۔انہوں نے 2002ءمیں ق لیگ بنائی اور اعلان کیا ”میاں برادران قابل اعتبار نہیں ہیں“ لوگ آج تک انہیں کنگز پارٹی اور مفاد پرست ٹولہ کہتے
آ رہے ہیں لیکن کیا آج ان کا موقف درست ثابت نہیں ہو گیا اور انہوں نے 17 سال پہلے میاں نواز شریف سے کنارہ کشی کر کے عقل مندی نہیں کی تھی؟ شیخ رشید اور مشاہد حسین سید بھی یہ کہتے تھے اور غوث علی شاہ بھی اسی رویے کو پیٹتے پیٹتے پارٹی سے الگ ہو گئے اور چودھری نثار بھی 35 سال کی وفاداری کے بعد اپنا قبلہ بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے۔یہ اس قدر دکھی تھے کہ یہ بیگم کلثوم نواز کے
انتقال پر بھی رائے ونڈ نہیں گئے اور جاوید ہاشمی بھی آج تک اپنے زخم کریدتے اور اپنی چوٹیں گنتے چلے جا رہے ہیں‘کیا آج یہ تمام لوگ سچے ثابت نہیں ہوگئے؟ آپ یقین کریں مجھے ماضی میں ان لوگوں کی رائے اور رویوں پر شک تھا لیکن 7 جنوری کے بعد یہ لوگ مجھے سچے دکھائی دے رہے ہیں‘ میں یہ بھی مان گیا ہوں میاں نواز شریف اپنے سگے بھائی میاں شہباز شریف کا سیاسی کیریئر تک نگل گئے ہیں۔
پارٹی کا کل اثاثہ میاں شہباز شریف کی کارکردگی اور پرفارمنس ہے لیکن یہ اس پرفارمنس کے باوجود آج لندن میں بیٹھے ہیں اور ان کا بیٹا حمزہ شہباز جیل میں جب کہ میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے لندن میں پھر رہے ہیں‘ صاحبزادی بھی عن قریب لندن پہنچ جائے گی‘ کیا یہ وہ اصول تھے‘ کیا یہ وہ اصولی موقف تھا آپ جس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے‘ کیا یہ وہ ووٹ تھا آپ جس کی عزت کا پرچم لہراتے رہے
اور کیا یہ وہ سویلین سپرمیسی تھی جس کا لولی پاپ آپ پوری قوم کو دیتے رہے؟۔میں دل سے سمجھتا ہوں میاں نواز شریف نے اس فیصلے سے اپنی سیاست کا آخری باب بھی بند کر دیا اور ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کا دل بھی توڑ دیا جو انہیں حقیقتاً اپنے دلوں کا قائد سمجھتے تھے‘ انہوں نے حاصل بزنجو جیسے وفادار دوست بھی کھو دیے اور مولانا فضل الرحمن کا سیاسی کیریئر بھی تباہ کر دیا‘ میاں نواز شریف کو ان کی جلاوطنیاں‘ مقدمے اور جیلیں ختم نہیں کر سکیں لیکن ایک غیرمشروط حمایت نے انہیں تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیا اور آج کے بعد ان پر صرف اور صرف بے وقوف لوگ ہی اعتبار کریں گے‘ لوگ ان کے حلف پر بھی یقین نہیں کریں گے۔