ہفتہ‬‮ ، 20 دسمبر‬‮ 2025 

جسٹس قاضی فائز کیس، کوئی شخص اس عدالت کے عزت و وقار کے ساتھ نہیں کھیل سکتا،کیا کوئی بغیر کسی ثبوت کے سوال اٹھا سکتاہے؟

datetime 19  دسمبر‬‮  2019 |

اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسی ریفرنس کیس پر سماعت،جمعرات کو کے پی کے بار کونسل اور پشاور ہائی کورٹ بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی کے دلائل مکمل،میاں رضا ربانی اپنے دلائل موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد دیں گے۔کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بنچ نے کی۔دوران سماعت کے پی کے بار کونسل اور پشاور ہائی کورٹ بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ

شکایت کنندہ نے اس معاملے میں ایک صفحے کا ثبوت بھی فراہم نہیں کیا، کوئی شخص اس عدالت نے عزت و وقار کے ساتھ نہیں کھیل سکتا ہے،22 کروڑ عوام سے 17 لوگ اس عدالت عظمی کے جج ہیں،کیا کوئی ان کی عزت و وقار پر شککی بنیاد پر بغیر کسی ثبوت کے سوال اٹھا سکتا ہے؟اگر اس عدالت کی عزت نہ ہو تو معاشرے کی عزت نہیں ہوگی،معاشرے کا وقار اس عدالت کے ساتھ وابستہ ہے،یہ مقدمہ برا احساس دلا رہا ہے،اس مقدمے سے عوام کے ججز پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے،عوام میں اس ریفرنس اور اس پر ہونے والی پریس کانفرنس پر تعجب میں ہے،اٹارنی جنرل کی کئے جاے والی کانفرنس میں نے اپنے کیرئیر میں پہلی بار دیکھی ہے،کیا ریاست کا پرنسل لاء آفسر ایسی پریس کانفرنس کر سکتا ہے؟کبھی نہیں سنا نہ دیکھا کہ عدالتی فیصلوں پر اٹانی جنرل نے پریس کانفرنس کی ہو،ہائی کورٹس تین معزز ججز کے فیصلے پر اٹارنی جنرنل نے کانفرنس کی،ریفرنس پر نہ حکومت اور نہ صدر کے پاس آرٹیکل 209 کے تحت تحقیقات کرانے کا اختیار ہے، صدر صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو انکوائری کا کہہ سکتا ہے،میرا کام مقدمہ جیتنا نہیں بلکہ عدالت کے ساتھ مل کر معاملے کو سلجھا نہ ہے،حکومت کو انفارمیشن دینے کا اختیار نہیں،ریفرنس کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی شفارش پر یہ شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جارہی ہے،اس میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جج کی انکوائری صرف ججز ہی کریں،آئین کسی اور شخص کو جج کی انکوائری کا مجاز نہیں بناتا،یہ صرف قاضی فائز عیسی کا نہیں پورے سپریم کورٹ کا کیس ہے،

کراچی سے خیبر تک تمام بار کونسل اس مقدمے میں عدالت کے سامنے کھڑی ہیں،جسٹس افتخار چوہدری کیس اور اس کیس میں صرف اتنا فرق ہے کہ ملک بھر کے وکلاء سڑکوں کی جگہ عدالت میں کھڑے ہیں، 2007 کی ایمرجنسی سے قبل بینچ کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ بلا آنے والی ہے،جج کی مدت ملازمت کو سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے،یہی عدلیہ کی آزادی ہے،ضی فائز ویسی کے ریفرنس میں پہلا قدم ہی شبہ پیدا کرتا ہے،جج کے خلاف انکوائری صرف سپریم جوڈیشل کانسل کرسکتی ہے نہ کہ صدر پاکستان،اس ریفرنس پر کونسل سے قبل انکوائری کروانہ ایک کرمنل عمل ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق ریفرنس وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے آیا، آپ کے مطابق ریفرنس میں وزیر اعظم کی سفارش غیر متعلقہ ہے؟ یہ تو آپ نے بہت دلچسپ دلائل دیئے ہیں،کیا وجہ ہے کہ انکوائری کرنے کا فنکشن صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہی دیا گیا ہے۔ معاملہ کی سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کے لیئے ملتوی کر دی گئی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



تاحیات


قیدی کی حالت خراب تھی‘ کپڑے گندے‘ بدبودار اور…

جو نہیں آتا اس کی قدر

’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…