دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا درس دینے والے پہلے اسلامی دھارے میں شامل ہوں،مولانافضل الرحمان کا انکار،بڑا اعلان کردیا

30  ‬‮نومبر‬‮  2019

کراچی(این این آئی)جمعیت علما اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دینی مدارس کا کردار قیامت تک جاری رہیگا۔ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا درس دینے والے پہلے اسلامی دھارے میں شامل ہوں۔ برصغیر کے تقسیم کیساتھ ہی ہمارے نظام تعلیم کو بھی تقسیم کیا گیا سرکار اور مدارس کے نظام تعلیم کو الگ الگ تصور کیا جاتا ہے۔ اس تقسیم کو ایک سازش تو قرار دیا جاسکتا ہے

لیکن اس پر ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے، خوش آئند بات تو یہ ہے کہ ہمارے مدرسے کا کوئی استاذ اور طالب علم تمہارے دروازے پر نوکریاں مانگنے نہیں آئے بلکہ لاکھوں گریجویٹ لوگ سرکار سے نوکریاں مانگنے کیلئے ان دروازوں پر ہیں مگر حکمران پہلے سے برسر روزگار نوجوانوں کو بیروزگار کرنے پر تلا ہوئے ہیں ؎۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے مختلف جامعات جن میں جامعہ بنوری ٹاؤن میں جامعہ کے رئیس اور وفاق المدارس کے صدر مولانا عبدالرزاق سکندر، مولانا امداد اللہ سے ملاقات، جامعہ صدیقیہ کے رئیس مولانا ڈاکٹر منظور مینگل سے ان کی والدہ کی تعزیت، جامعہ دارالخیر کے بانی مولانا اسفندیارخان مرحوم کے انتقال پر تعزیت اور جامعہ احسن العلوم کے رئیس مفتی زرولی خان سے ملاقات کے موقع پر گفتگو اور خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر جمعیت علما اسلام کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو، محمد اسلم غوری ڈاکٹر عتیق الرحمن، حاجی جلیل جان ودیگر بھی موجود تھے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا آج ہم انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کو دنیوی علوم کہا جاتا ہے۔ ہمارے اکابرین میں کوئی شخصیت ایسی نہیں مل رہی ہے جنہوں نے علی گڑھ کے نصاب تعلیم پر اعتراض کیا ہو ہاں اس میں اصلاحات کیلئے ضرور جدوجہد کی۔ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ نظام تعلیم کی اس تقسیم کی مخالفت کی ہے آج حکمرانوں کو مدارس کے طلبا کی فکر کیسے لاحق ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کا کردار قیامت تک جاری رہیگا۔ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا درس دینے والے پہلے اسلامی دھارے میں شامل ہوں۔ دینی مدارس قومی کے دھارے میں شامل ہی نہیں بلکہ اسکے علمبردار ہیں۔دینی مدارس کا نصاب تعلیم ایک ایسا جامع نصاب ہے جسکا متبادل دنیابھر کی یونیورسٹیز نہیں دے سکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے والے بیرونی ایجنڈے کو نہ صرف مسترد

کرتے ہیں بلکہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا ہر طرح دفاع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے طلبا کیلئے تین چیزیں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں نمبر 1 کتاب 2 استاد 3 مدرسہ، یہی وجہ ہے کہ طلبا انکا حددرجہ احترام کرتے ہیں جسکی وجہ سے دینی مدارس کے طلبا ہر میدان میں سرخرو ہو رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دینی مدارس کے طلبا میں عصری مضامین میں ٹاپ کرنے والے طلبا کو ترجیح دینا علوم نبوتؐ

کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ ایسی سوچ قائم کرنے سے دینی علوم کی روح متاثر ہوتی ہے لہذا ارباب مدارس کو ایسی سوچ کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ انہوں نیکہا کہ دینی مدارس علوم نبوتؐ کی چھانیاں ہیں انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے بیرونی ایجنڈے کی تکمیل سے دینی مدارس کی اصل حیثیت کو مجروح کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا جائے گا۔ علاوہ ازیں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے جماعتی احباب

کے ہمراہ جامعہ دارالخیر گلستان جوہر جاکر شیخ الحدیث مولانا محمد اسفندیار خان کے انتقال پر انکے صاحبزادوں سے اظہار تعزیت اوردعائے مغفرت کرتے ہوئے کہاکہ مولانا اسفندیار خان رح نے اپنی ساری زندگی علوم نبوتؐ کی اشاعت اور ملک میں اسلام کی سربلندی کیلئے وقف کررکھی تھی۔ وہ علم و حکمت کے پہاڑ تھے۔ انہوں نے کہاکہ مولانا اسفندیار خان رح کی دینی قومی اور ملی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…