اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی سمیع ابراہیم نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے پہلی دفعہ دو دن کی چھٹی لی ہے لیکن اس سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی، کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی ہے، جس وقت ان کی ملاقات ہوئی ہے، اس تناظر میں آپ دیکھیں کہ دو ہفتے مولانا فضل الرحمان کا دھرنا چلتا رہا، اس کے بعد میاں نواز شریف کو اچانک ریلیف ملا، کوٹ لکھپت جیل سے وہ نیب میں آئے، نیب سے وہ سروسز ہسپتال میں پھر وہ اس کے بعد رہا ہوئے۔
پھر ان کے باہر جانے کا معاملہ تھا، سمیع ابراہیم نے کہا کہ میاں شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ عمران خان نہ این آر او دے سکتے ہیں نہ لے سکتے ہیں تو شاید اس بات کا پس منظر یہ تھا کہ شاید وہ کوئی اور لوگ ہیں جو پاکستان میں طاقتور ہیں اور وہ یہ فیصلے کر رہے ہیں اور پھر خواجہ آصف نے پھر یہ بیان دیا کہ عمران خان اور ان کی کابینہ کے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف مر جائے تو اچھا ہے لیکن کچھ خدا ترس لوگ اسٹیبلشمنٹ میں ہیں جنہوں نے سوچا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ گویا ن لیگ یہ تاثر دے رہی تھی کہ شاید وہ کسی طاقتور گروپ سے بات کرکے انہوں نے اپنے لیے کچھ آسانیاں تلاش کی ہیں پھر جب نواز شریف کی ضمانت ہوئی ہے پھر جو ٹویٹس چلے ہیں جس میں گیم چینجر شہباز شریف اور ان کی فیملی کی تصویریں اور پورا یہ تاثرتھا کہ عمران خان اب غیر متعلقہ ہو گئے ہیں پھر کابینہ نے ایڈیمنٹی بانڈ کا فیصلہ کیا، انہوں نے کہا کہ یہ میں پس منظر بتا رہا ہوں، اس اثناء میں بیچ میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے عمران خان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی، سمیع ابراہیم نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو تین دفعہ کہا کہ پاکستان کی فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہم الیکٹڈ گورنمنٹ کے ساتھ ہیں، یہ سیاسی معاملات ہیں لیکن انہوں نے میاں فضل الرحمان کو محب وطن قرار دیا اور اس سے پہلے ان کی ٹون کچھ اور تھی۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد دو دن کی چھٹی لے لی۔ انہوں نے کہا میاں نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے،
اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے اور چار ہفتے کے بعد جب یہ معاملہ دوبارہ پیش ہو گا تو ہم اس وقت بھی بانڈز کا مطالبہ کریں گے، انہوں نے کہاکہ گورنمنٹ کے پاس چانس ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں چلی جائے لیکن گورنمنٹ سپریم کورٹ میں نہیں جا رہی، اس طرح میاں نواز شریف کو باہر جانے کی خاموشی سے اجازت دے دی گئی ہے، فیس سیونگ کے لیے تو ضرور گورنمنٹ کہہ رہی ہے کہ ہم مخالفت کرتے ہیں لیکن پریکٹیکل ایسی کوئی مخالفت نہیں ہے جو نواز شریف کو باہر جانے سے روکے۔
سمیع ابراہیم نے کہا کہ اس تناظر میں جب جنرل باجوہ کی ملاقات ہوئی تو جو بہت سارے جاننے والے ہیں اس میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ اب ملٹری اور سول قیادت میں نواز شریف کے بارے میں اتفاق رائے ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے چھٹی لی اور جو جاننے والے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ جو کچھ چل رہا تھا اور اس نے ویسے ہی ہو جانا تھا، یہ کابینہ کا معاملہ اور بانڈز کا معاملہ اس کی ضرورت نہیں آنی تھی اگر ن لیگ کے قائدین اور شریف خاندان یہ تاثر دینے کی کوشش نہ کرتا کہ عمران خان غیر متعلقہ ہیں، اس پر یہ سارا معاملہ ہوا۔
معروف صحافی نے کہا کہ میری عمران خان کے ایک دوست سے بات ہوئی کہ عمران خان جو کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں وہ چھٹی چلے گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک فائٹر ہے لیکن جب انسان ذہنی طور پر تھک جاتا ہے تو اس کو چھٹی چاہیے ہوتی ہے، جب آدمی اتنی فائٹ کرتاہے اور ابھی آپ میڈیا، بیورو کریسی میں دیکھیں، طاقتور لوگوں میں دیکھیں کہیں پر دیکھیں، ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں اور عمران خان کے دوست کے مطابق یہ سب لوگ بالکل کوؤں کی مانند ان پر حملہ آور ہو گئے ہیں، الیکشن عمران خان نے کرپشن کے خلاف لڑا لیکن اب جب کرپشن میں سزائیں دینا شروع کیں،
لوگوں کو پکڑا ہے تو لوگ کہتے ہیں پاکستان کے معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کدورتیں ختم کریں، مخالفتیں ختم کریں، ایک دوسرے کو گلے لگائیں تو یہ مینڈیٹ نہیں ہے لوگوں کا اور عمران اس کو ریزسٹ کر رہا ہے لیکن پھر پرویزالہی، شجاعت حسین، شیخ رشید، ایم کیو ایم یہ سارے کے سارے کہہ رہے ہیں کہ نہیں نواز شریف کو باہر جانا چاہیے، عمران فائٹر ہے لیکن ٹیم میں جو دو نمبر لوگ آئے ہوئے ہیں لیکن وہ انہیں چھوڑ دینے پر راضی نہیں ہیں، اس لیے دو دن کی چھٹی پر چلے گئے۔ سمیع ابراہیم نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دو دن کے بعد بڑے فیصلے لینے ہیں، عمران خان نے اپنے دوستوں کو بتا دیا ہے وہ بہت اہم فیصلے کرنے والے ہیں،
ان میں سے ایک میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ چیف آف جنرل سٹاف جنرل زبیر حیات بھی ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کی جگہ تین آدمیوں کے نام آئے ہیں، ان میں سے کسی ایک کی سلیکشن بھی شامل ہے۔ کابینہ میں تبدیلیوں اور بیورو کریسی کو بھی دیکھ رہے ہیں، قوانین میں تبدیلی اور خاص طور پر مہنگائی کے معاملہ پر اہم فیصلے لینے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو الگ تھلگ کیا ہے اور سوچ رہے ہیں اور اپنے پسند کے لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔ عمران خان کو پتہ ہے کہ اس کی کمزور ٹیم ہے لیکن پھر بھی وہ فائٹ کر رہا ہے، سمیع ابراہیم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ میں اس کے سیاسی اثرات کی بات کر رہا ہوں، قطعی طور پر ہماری عدلیہ آزاد ہے
اور اس پر میں کوئی سوال نہیں کر رہا لیکن جو فیصلہ ہوتا ہے اس پر بات کی جا سکتی ہے، ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو رہی لیکن فیصلے پر بات ہو سکتی ہے، ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ شہباز شریف اچانک اتنے معتبر کیسے ہو گئے؟ اور وہ بھی جسٹس باقر نجفی کے لیے جنہوں نے خود اپنی رپورٹ میں کہا کہ ماڈل ٹاؤن کلنگ میں ذمہ داری شہبازشریف کی ہے اور رانا ثناء اللہ کی ہے۔ اور اس رپورٹ کی بناء پر انہیں بہت مشکلات کاسامناکرنا پڑا، اب کیا معصوم لوگ کے قاتل کے حلفی بیان پر اس کا بھائی واپس آ جائے گا، اس کو عدالت نے تسلیم کر لیاہے۔ سمیع ابراہیم نے کہا کہ بہرحال یہ ایک سوال ہے عدالت نے جو کچھ بھی کیا ہو گا وہ قانون کے مطابق درست کیا ہو گا،
یہ میں کہتا ہوں اور یہ ہمارے آئین کے مطابق ہے، انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی کہہ رہے ہیں کہ اس فیصلے سے بڑے سوال اٹھ رہے ہیں، لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ چھٹی والے دن عدالتیں کسی غریب آدمی کے لیے نہیں لگتیں، سمیع ابراہیم نے کہا کہ یہ قانون کے مطابق ہے کہ عدالت جب بھی بیٹھ جائے یہ عدالت کا استحقاق ہے، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہ استحقاق مخصوص طبقے کے لیے استعمال ہوا۔ بہت اچھا ہو کہ عدلیہ پاکستان کے ان لوگوں کے لیے بھی ایکٹ کرے جو بے چارے مظلوم ہیں، جن کو میرٹ پر نوکریاں نہیں ملتیں، جن کا ہسپتالوں میں علاج نہیں ہوتا، جن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اگر ان کے لیے بھی اسی تیزی سے عدلیہ یا دوسرے ادارے حرکت میں آئیں تو پاکستان واقعی نیا پاکستان بن جائے گا۔
پاکستان تبدیل ہو جائے گا یہ وہ پاکستان بن جائے جس کا وعدہ قائد نے کیا تھا، جس کا لوگ خواب دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا نام پاکستان رکھا گیا۔ سمیع ابراہیم نے کہاکہ لوگ سوال کر رہے ہیں کیوں ہمارا وزیراعظم چھٹی پر چلا گیا ہے اسی لئے گیا ہے وہ میرے بارے آپ کے بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کر رہا ہے، لوگ کہتے ہیں ناں کہ بڑی چھلانگ لگانے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے تو بڑا فیصلہ، بڑا وقت آنے والا ہے، قوم کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کب تک ہم ان ماضی کے مزارعوں کو جنہوں نے اس ملک میں سوائے غربت، بھوک، افلاس، بے رحمی کے سوا کچھ نہیں دیا، ہم کو بھی ان سے جان چھڑانا ہو گی اور کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے، اگر حضرت عمر فاروقؓ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی بھی شخص کو حق ہے کہ وہ مجھ سے کوئی بھی سوال کر سکے اور ہمارے نبی کریمؐ کہتے ہیں کہ اگر چوری ثابت ہو جائے تو فاطمہ کا بھی ہاتھ کاٹ دو، تو پھر سوال کرنا ہمارا حق ہے، آپ کا حق ہے، سوالوں کے جواب ملیں گے تو پھر گاڑی آگے بڑھے گی۔