منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

’’مولانا! فضل الرحمٰن رہیں، عمران خان نہ بنیں‘‘ اگر مولانا آزادی مارچ کا رخ ڈی چوک کی جانب کرتے ہیں تو پھر کیا ہو گا ؟ سلیم صافی نے حیرت انگیز انکشافات کر دیئے

datetime 6  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی سلیم صافی اپنے کالم ’’ مولانا! فضل الرحمٰن رہیں، عمران خان نہ بنیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔عمران خان صاحب اور ان کے سرپرست لاکھ ذہنوں سے محو کرنا چاہیں لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر، اپنے لائو لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تھے۔تب انہوں نے اس وقت کے وزیرداخلہ اور اپنے

دوست چوہدری نثار علی خان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آبپارہ سے آگے نہیں جائیں گے لیکن ایک روز وہ وعدہ توڑ کر اور لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال کر ریڈ زون کی طرف چل پڑے۔انہوں نے وعدہ توڑا تھا اور یوں اب ان کے اور ان کے وزرا کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ مولانا کو معاہدے کی یاددہانی کراتے ہوئے ریڈزون آنے سے روک دیں لیکن مولانا، عمران خان کی طرح صرف زبان سے دین کی بات نہیں کرتے بلکہ عالم ہونے کے ناطے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضورﷺ نے وعدہ خلافی کو منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔اس لئے مولانا سے التجا ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق پشاور موڑ سے آگے نہ بڑھیں۔ بالفاظ دیگر مولانا! فضل الرحمٰن ہی رہیں، عمران خان نہ بنیں۔عمران خان کے وزرا اور ترجمانوں کو یاد ہو یا نہ یاد ہو، ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان صاحب نے ڈی چوک میں شاہراہ دستور پر بیٹھ کر منتخب وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو گھسیٹ کر وزیراعظم ہاوس سے نکالنے کے دعوے کئے تھے۔ اس لئے خان صاحب یا ان کے وزرا کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مولانا پر تنقید کریں لیکن تب مولانا کا بھی موقف تھا اور ہمارا بھی کہ اگر ہجوم وزرائے اعظم کو اسی طرح گھر بھیجنا شروع کردیں تو یہ ملک شہرِ ناپُرسان بن جائے گا۔اگر اب مولانا بھی اس طریقے سے حکومتوں کو ختم کرنے لگیں جس طریقے سے عمران خان ختم کرنا چاہ رہے تھے

تو پھر ان میں اور عمران خان میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اس لئے بھی گزارش ہے کہ مولانا! فضل الرحمٰن رہیں، عمران خان نہ بنیں۔عمران خان کو مسیحا ثابت کرنے والے اینکرز اور تجزیہ کار شاید بھول گئے ہوں لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان صاحب کے دھرنوں کے دوران پولیس کو بھی لہولہان کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر گندے کپڑے لہرائے گئے۔پارلیمنٹ کو گالیاں دی گئیں۔

ہمارے جیو کے دفتر پر روز پتھرائو ہوتا رہا۔ پی ٹی وی پر حملہ ہوا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کی نشریات معطل ہوئیں لیکن وہ تو عمران خان صاحب کی قیادت میں ہورہے تھے۔ اب اگر مولانا کے دھرنے کے نتیجے میں بھی ایسا کچھ ہو تو پھر مولانا اور عمران خان میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اس لئے بھی مولانا سے گزارش ہے کہ وہ فضل الرحمٰن ہی رہیں، عمران خان نہ بنیں۔جو لوگ آج بار بار ہائی کورٹ

اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا ذکر کررہے ہیں لیکن فیصلے کرنے والے ججز کا نام لینا نہیں چاہتے، شاید بھول چکے ہوں لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان کے دھرنوں کے نتیجے میں قانون کو ہاتھ میں لیا گیا۔آئین جہاں ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے وہاں اس کا یہ حق اس وقت ختم کردیتا ہے کہ جب اس سے کسی اور شہری کے حقوق متاثر ہوں۔ مولانا تسلسل کے ساتھ 73کے آئین کا ذکر کرتے ہیں

لیکن اب اگر وہ یا ان کے کارکن بھی عمران خان کے راستے پر چل پڑیں تو پھر تو ان میں اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ اس لئے بھی مولانا سے گزارش ہے کہ وہ فضل الرحمٰن ہی رہیں، عمران خان نہ بنیں۔شاید شہریار آفریدی اور پرویز خٹک بھلانا چاہیں لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے تو نمائشی استعفے دیئے لیکن کے پی حکومت چھوڑنے پر تیار نہ تھی۔

دھرنوں کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کے ممبران بھی سر جھکائے اس اسمبلی میں واپس چلے گئے جس پر لعنت بھیجتے رہے۔اب مولانا کے پارلیمنٹ کی تحلیل کے مطالبے میں بھی اس وقت تک وزن نہیں جب تک وہ اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوجاتے۔ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوتیں تو اخلاقی طور پر مولانا کو انہیں اپنے ا سٹیج پر نہیں بٹھانا چاہئے۔

اس لئے مولانا کو چاہئے کہ وہ کسی دوسرے اقدام سے قبل خود بھی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں اور اپوزیشن کے اپنے اتحادیوں سے بھی ایسا کروا دیں۔ایسا کرنے سے قبل اگر مولانا اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ کرتے ہیں تو سیاسی طور پر وہ عمران خان کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مولانا سے گزارش ہے کہ فضل الرحمٰن ہی رہیں اور عمران خان نہ بنیں۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…