لاہور(این این آئی)پاکستان میں دس سالوں کے دوران بد امنی کے سبب کاروباری سرگرمیاں کافی حد تک کم رہیں لیکن بعض ائیر پورٹس نے اچھا خاصا منافع ہوا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معاشی حب میں واقع جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ منافع کمانے میں سب سے آگے ہے جس نے دس سالوں میں ایک ارب 46 کروڑ 33 لاکھ روپے سے زائد منافع کمایا۔
علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیرپورٹ بھی دس سالوں سے نہ صرف اپنے اخراجات پورے کررہا ہے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ کما کر بھی دے رہا ہے۔ اس ہوائی اڈے نے 10 سالوں میں 62کروڑ روپے منافع کمایا۔اس ایئر پورٹ سے 2017 میں 16 کروڑ 17 لاکھ روپے اور 2018 میں 16کروڑ 72 لاکھ روپے سے زیادہ منافع ہوا۔بے نظیربھٹوانٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی منافع کمانے والے ہوائی اڈوں کی فہرست میں شامل ہے جس نے دس سالوں میں 54 کروڑ روپے سے زائد منافع کمایا۔ یہاں سے 2009 میں ایک کروڑ اکیس لاکھ روپے اور 2018 میں 10 کروڑ 53 لاکھ روپے منافع ہوا۔باچا خان ائیرپورٹ نے بھی کبھی حکومتی خزانے پربوجھ نہیں ڈالا بلکہ دس سالوں میں 17 کروڑ99 لاکھ سات ہزار روپے سے زائد کا منافع کما کر قومی خزانے جمع کرایا۔ملتان کا انٹرنیشنل ائیرپورٹ 2009 سے 2013 تک مسلسل نقصان میں رہا اور سب سے زیادہ نقصان ایک لاکھ 24 ہزار روپے تھا جو 2011 میں ہوا۔2014 میں 22 لاکھ روپے منافع ہوا اور اس 2018 تک 3کروڑ 36لاکھ روپے تک جا پہنچا۔ اس ائیرپورٹ نے پانچ سالوں میں 9 کروڑ 80لاکھ روپے منافع کمایا۔فیصل آبادانٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی 2009 سے 2015 تک خسارے میں رہا سب سے زیادہ خسارہ 2011 میں 90 ہزار روپے تھا۔اسی ائیرپورٹ نے 2016 سے منافع کمانا شروع کیا جو 2018 تک 90 لاکھ 56 ہزار تک جا پہنچا اور گزشتہ تین سالوں میں دو کروڑ 78 ہزار روپے منافع کمایا۔
کوئٹہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا کاروبار بھی 2009 سے 2015 تک خسارے میں رہا اور اس دوران 36 لاکھ روپے کا نقصان پوا تاہم پھر اس کے دن پھر گئے اور دو لاکھ روپے سے زائد منافع کمایا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی پاکستان میں سب سے پہلے میزبانی کرنے والا والٹن ائیرپورٹ دس سالوں میں 87 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔یہ ہوائی اڈہ اب عام مسافروں کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اسے کبھی کبھارلاہور آنے والے اہم شخصیات استعمال کرتی ہیں۔
علاوہ ازیں کمرشل پائلٹس کے لیے تربیتی پروازیں درختوں پر اسپرے کا کام کرنے والے طیارے بھی یہاں سے ہی اڑان بھرتے ہیں۔1986 میں تیار ہونے والا بہاولپور ائیر پورٹمسلسل خسارے کاشکار ہے اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود اس کی قسمت نہ بدل سکی اور 2009 سے 2018 تک یہ ہوائی اڈہ 57 لاکھ 83 ہزار روپے کا نقصان کرچکا ہے۔ رحیم یار خان کا شیخ زید انٹرنیشنل ائیرپورٹ 2003 سے ہر سال متحدہ عرب امارات کے رائل خاندان کی میزبانی کررہا ہے
جب کہ1973 اور 2010 میں اسے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ 2009 سے حج فلائٹس بھی شروع کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود خسارہ ختم نہیں ہوا اور دس سالوں میں قومی خزانے کے لیے 54 لاکھ روپے نقصان کا سبب بنا۔پاکستان کی آزادی سے قبل برطانوی ائیرفورس کے زیراستعمال رہنے والا نواب شاہ ائیرپورٹ جناح انٹرنیشنل کراچی کا متبادل ہے لیکن یہاں سے حکومت پاکستان کو گزشتہ دس سالوں میں ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔بیگم نصرت بھٹو ائیرپورٹ سکھر کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن مقامی پراوزوں کے لیے استعمال کرتی ہے لیکن یہ ہوائی اڈہ دس سالوں میں 92 لاکھ روپے کا نقصان کرچکا ہے۔
سندھ کے تاریخی شہر موہنجوڈارو میں واقع ائیرپورٹ سے دس سالوں میں 59 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ گللگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت ائیرپورٹ بھی دس سالوں میں 57 لاکھ 45 ہزار روپے کا نقصان کرچکا ہے۔بلتستان کی خوبصورت وادی میں واقع سکردو ائیرپورٹ سے بھی دس سالوں میں 54 لاکھ روپے خسارہ ہوا۔ڈیرہ غازی خان ائیرپورٹ 39 لاکھ، پسنی ائیرپورٹ35 لاکھ، ڈیرہ اسماعیل خان ائیرپورٹ 34 لاکھ روپے، چترال ائیرپورٹ 30 لاکھ، ژوب ائیرپورٹ 29 لاکھ روپے، حیدر آباد ائیرپورٹ 27 لاکھ روپے، گودارائیرپورٹ 24 لاکھ روپے، پنجگور ائیرپورٹ 19 لاکھ 88 ہزار روپے، دالبدین ائیرپورٹ نے 18 لاکھ روپے اور جیوانی ائیرپورٹ نے 11 لاکھ روپے کا نقصان کیا۔