اسلام آباد(آن لائن)وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہاہے کہ غریب اور متوسط طبقے کی بجائے امیروں سے ٹیکس وصول کریں گے اور اگر اس وجہ سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہمیں پروا نہیں ہے،نان فائلرز کی اصطلاح کو ختم کردیا ہے گھر یا گاڑی خریدنے والے نان فائلرزکو 45دنوں میں اپنی آمدن کے ذرائع بتانا ہونگے،پرتعیش غیر ملکی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی میں 4فیصد اضافہ کیا گیا ہے،قبائلی اضلاع کو ملک کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کے برابر لانے کیلئے خصوصی فنڈز دئیے جائیں گے۔
بدھ کے روز پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان کے امیر لوگوں کو پاکستان کے ساتھ سچا اور مخلص ہونا ہوگا اور ٹیکس دینے ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میں امیر طبقہ کم ٹیکس دیتا ہے، ہمارے یہاں ٹیکس کی شرح 11، 12 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کے دیگر ممالک کے امیر لوگ ہم سے کافی زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، لہٰذا پاکستان میں یہ قابل قبول بات نہیں اور اگر ٹیکس کی وصولی کے لیے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا پڑے گا تو ہم تیار ہیں انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے اپنے اخراجات کو واضح طور پر کم کرکے لوگوں کے لیے مثال قائم کی ہے عوام سے قربانی مانگنے سے قبل خود قربانی دینا ہوگی اس کے لیے ہم نے کفایت شعاری دکھائی اور سول حکومت کے اخراجات کو واضح طور پر کم کرکے 468 ارب سے 431 ارب کردیا ہے مشیر خزانہ نے دفاعی بجٹ سے متعلق بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج نے بجٹ کو گزشتہ سال کی سطح پر قبول کیا اور اس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، یہ دنیا اور پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک بہت اچھا پیغام ہے کہ کس طرح حکومت کے اخراجات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا ہے کہ موجود مشکل معاشی حالات سے نمٹنا ضروری ہے اور اس کے لیے سیاست سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کو سامنے رکھنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے 10 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ڈالر میں ہی کرنا تھی جبکہ ڈالر کمانے کی صورتحال ایسی تھی کہ برآمدات کی ترقی صفر تھی اور تجارت کا فرق 40 ارب ڈالر کے قریب تھا انہوں نے بتایا کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو 31 ہزار ارب کا قرضہ اسے ورثے میں ملا جبکہ ملکی محصولات سے حاصل ہونے والی رقم 4ہزار ارب روپے تھی جس میں 2ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں اور صوبوں کو محصولات میں 60فیصد حصہ دینا ہوتا ہے
اور حکومت کے پاس سال کے آغاز ہی میں سول اور دفاعی اخراجات کیلئے کوئی رقم نہیں بچتی ہے جس کی وجہ سے بینکوں سے قرضے لیکر اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے دیگر لوگوں کے لیے گئے قرضے واپس کرنے ہیں کیونکہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوسکتا اور ماضی کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے 2 ہزار 900 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر معاشی صورتحال خراب ہونے کے باوجود ہم نے چند چیزوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں 3، 4 ایسے شعبے ہیں جہاں پراخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سماجی تحفظ کے موجودہ بجٹ کو 100 ارب سے بڑھا کر 191 ارب روپے تک لے گئے ہیں اسی طرح بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی صورت میں کمزور طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا اور 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سبسڈی کی غرض سے بجٹ میں 216 ارب روپے رکھے جارہے ہیں تاکہ چھوٹے صارفین کو بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی تکلیف سے بچایا جائے انہوں نے کہاکہ گذشتہ سال ترقیاتی بجٹ کی مد میں 550 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ اس سال 950 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں ملک میں ڈیمز کی تعمیر، کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کے لیے بھی رقم
مختص کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تیسرا شعبہ جہاں ہم نے توجہ مرکوز کی وہ غربت اور مسائل کا شکار علاقے خصوصی طور پر قبائلی اور بلوچستان کے کچھ علاقوں پر تھی، اس کے لیے فاٹا کے ضم علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ان اضلاع کے لیے 152 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ پاکستانی معاشرے میں مکمل طور پر ضم ہوجائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں برآمدات کرنے والوں پر زیرو ریٹنگ ہے یعنی برآمدی شعبے پر کوئی ٹیکس نہیں ہے تاہم برآمدات کے ساتھ اپنے ملک میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی فروخت کرنے پر ٹیکس دینا ہوگا۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ برآمد کنندگان کو برآمدات بڑھانے کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں مراعات دی گئیں،
جبکہ حکومت کی جانب سے اندرونی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ برآمدی شعبے کے ٹیکس نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی بلکہ ہم برآمد کنندگان کو مدد دینے کے لیے مزید اقدامات کر رہے ہیں، تاہم اس وقت ہمارے اندازے کے مطابق مقامی شعبے میں 1200 ارب روپے کی ٹیکسٹائل کی سیل ہورہی ہے لیکن ہمیں 6 سے 8 ارب روپے ٹیکس ملتا ہے جو ناقابل قبول ہے، اس ملک میں کاروبار کریں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ 1200 ارب پر 6 یا 8 ارب کا ٹیکس دیں انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا، جس میں 3 سے 4 اہم چیزوں پر توجہ دی گئی، سب سے پہلا بیرونی قرضوں پر منظم حد تک قابو پانا ہے اور اس کے لیے 9 ارب 2 کروڑ ڈالر موبیلائزڈ کیے گئے،
پیٹرولیم مصنوعات کے لیے تاخیری ادائیگیوں کا انتظام کیا گیا۔اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ درآمدات پر اس طرح کی ڈیوٹی لگائی گئی اور برآمدی شعبے کو مراعات دی گئیں۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دوسری توجہ مالی خسارے پر تھی کہ یعنی آمدنی اور اخراجات میں توازن اور اس کے لیے ریونیو کا ہدف چیلنجنگ بنایا ہے۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنقید کی جارہی کہ ریفنڈز کے سلسلے میں مشکل نہ ہو، اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ریفنڈ کے سلسلے میں بہت بہتری کی گنجائش ہے اور اس نظام میں بہتری کے حوالے سے ایک گیم پلان پیش کریں گے ساتھ ہی کوشش کریں گے کہ بنگلہ دیش اور چین کا ماڈل اپنایا جائے، ہم کاروباری شعبے کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ تجاویز دیں تاکہ اس معاملے کو ختم کیا جائے۔ٹیکس نظام میں بہتری
کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مختلف چیزوں پر سیلز ٹیکس مینوفکچرنگ کے موقع پر وصول کی جائے تاکہ گڑ بڑ کے امکانات کم ہوں۔عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ہم فائلر اور نان فائلر کے فرق کو بھی ختم کر رہے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ مستقل نان فائلر رہیں اس نظام کو ختم کیا جارہا ہے اور اب ماضی میں نان فائلر رہنے والا کوئی گاڑی یا جائیداد خریدے گا تو اسے 45 دن میں فائلر بننا پڑے گا، اگر ایسا نہیں کرے گا تو 45دن بعد ٹیکس ادائیگی کا نوٹس بھیج دیا جائے گا جس کے بعد اسے خریدی گئی گاڑی یا جائیداد سے متعلق آمدنی کے ذرائع ظاہر کرنے ہوں گے، اس اقدام کے کافی اچھے اور دورست نتائج آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فائلر کے طریقہ کار کو بھی کافی وضع کیا گیا ہے، نان فائلر بذریعہ کمپیوٹر 6 منٹ میں فائلر بن سکتا ہے۔
کسٹم ٹیرف کا نظام بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متعدد مصنوعات پر مشتمل ایک ہزار 655 لائنز، خام مال جو پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا اس پر کسٹم ڈیوٹی صفر کردی ہے جو ایک بڑا اقدام ہے۔انہوں نے بتایا کہ لگژری اشیا کی درآمدات پر ڈیوٹی میں 4 فیصد اضافہ کیا کیونکہ اگر امیر لوگ ایسی چیزیں استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اضافی 4 فیصد ادا کریں۔اس موقع پر صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاست اور معیشت کے حقائق کو مدغم نہیں کرنا چاہیے، سیاست میں اختلاف رائے رکھ کر رائے کا اظہار کرتے ہیں جو جمہوریت کی خوبصورتی ہے، تاہم ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ حقائق کو تسلیم کریں جبکہ اس کے باوجود بھی اختلاف رائے رکھا جاسکتا ہے انہوں نے کہاکہ ہم سب مل کر 5 ہزار 500 ارب روپے ٹیکس کی وصولی کے ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے انہوں نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کے درمیان عزت سے کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹیکس وصول کرنا ہوگا،
جب بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا ٹیکس وصول کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قدرتی طور پر کوئی ٹیکس دینا نہیں چاہتا لیکن دنیا بھر میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمیں معاشرے میں کن لوگوں کا خیال رکھنا ہے اور اگر ہم فاٹا کے لوگوں کو پیسے دے رہے ہیں تو وہاں جنگ ہوئی ہے اور لوگ پریشانی سے گزرے ہیں پریس کانفرنس کے دوران ٹیکس آمدن کے ہدف میں فرق سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کچھ فیلڈز کی نشاندہی کی ہوئی ہے تاہم 250 ارب روپے کے فرق کو پورا کرلیا جائے گا۔نئے ٹیکسز لگائے جانے اور ان سے بڑھنے والی ممکنہ مہنگائی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں شبر زیدی کا کہنا تھا کہ بجٹ میں سیکٹرز کے اعتبار سے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جس میں مہنگائی پر اثر نہیں پڑے گا۔مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ موجود حکومت قرضہ لے رہی ہے اور اس کو اچھے انداز میں استعمال نہیں کر رہی تو اس پر حکومت خوشی سے احتساب کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔