کوئٹہ (این این آئی)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ عید کے بعد بلوچستان جمہوری اور اسمبلی کے قوائد کے مطابق تبدیلی لائیں گے ہمیں حکومتی ارکان کی بھی حمایت حاصل ہے قوی امکا ن ہے ہم کامیا ب ہونگے،وفاقی حکومت اگر چھ نکا ت پر پیش رفت کے حوالے سے مطمئن کر دے تو ہم بجٹ میں انہیں ووٹ دیں گے ورنہ وہ ہم سے گلہ نہ کریں، حکومتیں ٹوئٹر پر نہیں عوام کے مسائل حل کرنے اور انہیں سہولیات مہیا کرنے سے چلتی ہیں،
یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں کے وفد کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی،سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں روز اول سے حکومت بنائی نہیں تھونپی گئی ہے نہ عوام اور نہ ہی وہ لوگ جنہیں گھسیٹ کر حکومت میں شامل کیا گیا حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہیں اس وقت بھی بلوچستان حکومت اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائی کر رہی ہے جبکہ حکومتی پارٹی کے ناراض ارکان سے ہمارے رابطے ہیں ہماری کوشش تھی کہ عید سے پہلے صوبے میں تبدیلی لائیں لیکن اب حکومت عید اچھی گزار لے عید کے بعد جمہوری طریقے سے اسمبلی کے قوائد کے مطابق اگر ہٹا سکے تو تبدیلی لائیں گے جبکہ اب تک کی تعداد کے مطابق قوی امید ہے کہ ہم کامیاب ہونگے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومتیں ٹوئٹر پر چلتی تو دفاتر اور سیکرٹریٹ نہ ہوتے حکومت عوام سے رابطے اور بنیادی مسائل کے حل بنیادی حقوق دہلیز پر دینے سے چلتی ہیں اگر حکومت ٹوئٹر پر چلتی تو لوگ بیرون ملک بیٹھ کر حکومت کر رہے ہوتے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے ہر علاقے میں حالت ابتر ہے اس سے اگر لوگ مطمئن ہیں تو ہم بھی مطمئن ہیں کوئٹہ سے ہمارے تین ایم پی اے ہیں وہ روزانہ صفائی، امن وامان کی صورتحال سے متعلق شکایت کرتے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی اگر یہ کارکردگی ہے تو واقعی حکومت کامیا ب ہے،سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل دیرینہ ہیں انہیں سنجید گی سے نہیں لیا گیا ہمیں پر ہمیشہ سیاسی طور پر بات نہ سمجھا پانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے
اسی لئے ہم نے اس بار لکھ کر معاہدے کیے جن کی حکومت کو وقتا فوقتاًیاد دہانی کروائی،انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں سے مشاورت یا وزرات کا مینڈیٹ نہیں بلکہ صوبے کے مسائل حل کرنے کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں، ہم مسائل کے حل کی طرف راستہ دیکھا رہے ہیں لیکن اب بھی 9ماہ گزر چکے صوبے کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہمیشہ تسلی دی گئی مگر عمل درآمد صفر ہے،انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں ترقیاتی،سیاسی مسائل ہیں ان کو حل کر نے کے لئے بااختیار اور جوابدہ کمیٹی ہونی چاہیے جس کے لئے ہم نے چارممبران کے نام دئیے لیکن حکومت کی جانب سے کبھی نام نہیں آتے تو کبھی تبدیل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے کمیٹی اب تک نہیں بن پائی لیکن سننے میں آیا ہے کہ حکومتی وزیر نے کہا کہ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے
لیکن اس سے متعلق ہمیں نہیں معلوم کہ کون اس کی سربراہی کر رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ پہلے جو کمیٹی بنی اس میں جہانگیر ترین،شبلی فراز،پرویز خٹک، خسروبختیار کے نام آئے تھے لیکن بعد میں اس میں جہانگیر ترین کی جگہ نعیم الحق کا نام دیا گیا ہم نے کہا کہ ہمیں کام سے کام ہے جو بھی کمیٹی ہو وہ مسائل کو حل کرنے کے سنجیدہ اقدامات کرے،اب ایک نئی کمیٹی کے نام جن میں پرویز خٹک، ارباب شہزاد، قاسم سوری شامل ہیں میڈیا کے ذریعے معلوم ہو ئے ہمیں اس سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی،انہوں نے کہا کہ ہم 9ماہ سے حکومت کے ہر مثبت فیصلے کو سپورٹ کر تے آئے ہیں،اگر وہ ہم سے ووٹ لینے کے خواہش مند ہے تو پہلے یہ بتائیں کہ ان 9ماہ میں ہمارے مطالبات پر کتنا عمل درآمد ہوا اگر وہ ہمیں مطمئن کر سکیں کہ کتنے لوگ بازیاب ہوئے،ترقیاتی کام ہوئے، فارن سروس میں بلوچستان کے لوگ کو لگایا اورفیڈرل سروس میں چھ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد ہوا ہے تو ہم سپورٹ کریں گے اگر مطمئن نہ کر سکے تو ہم سے گلہ نہ کریں