اسلام آباد (این این آئی) چیئر مین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بزنس مین ، بیورو کریٹس اور خواتین کو دفاتر نہ بلانے کااعلان واضح کیا ہے کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور چلے رہیں گے ، نیب اور کرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا ہوا ہے جس میں منی لانڈرنگ بھی وجہ ہے، جب پاکستان کا مسئلہ عالمی سطح پر ہوگا تو نیب چند لوگوں کی پرواہ نہیں کریگا۔
اثر و رسوخ کی پرواہ کیے بغیر ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو ملک کے مفاد میں ہوگا، اگر فالودے والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزکشن ہو تو خاموش نہیں رہ سکتے ہیں،جمہوریت احتساب نہیں اعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے ، اگر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتے تو لوگ ملک سے نہ بھاگتے، نیب ثبوت ہونے کے بعد کسی پر ہاتھ ڈالتا ہے، نیب کی وابستگی ریاست کے ساتھ ہے حکومت کے ساتھ نہیں، وہ دن گزر گئے جب پوچھ گچھ نہیں تھی، حکومت یا کسی ادارے سے ڈکٹیشن لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتوار کو یہاں ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہاکہ جب سے عہدہ سنبھالا ہے تو کبھی بھی اپنی ذات پر ہونے والی تنقید پر کوئی گلہ نہیں کیا کیونکہ مجھے معلوم ہے اس طرح کے کاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دو تین دن سے صورتحال ٹھیک نہیں جس پر بحیثیت چیئرمین نیب میرا خاموش رہنا ادارے کیلئے بہتر نہیں تھا۔جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میری ذات کامسئلہ نہیں لیکن ادارے کیخلاف بات کی گئی اس لیے مجھے بولنا پڑا ہے۔انہوں نے کہاکہ نیب نے معیشت کے خلاف آج تک کوئی اقدام نہیں کیا، معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی عمل دخل نہیں، چند دنوں سے باتیں ہورہی تھی کہ اس کا ذمہ دار نیب ہے۔
اس معاملے کو سیاسی نہ بنائیں، مثبت تنقید کریں اس کا ہمیشہ خیرمقدم کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ معاشی بحران حکومتی بحران نہیں بلکہ یہ قومی بحران ہے، جب قومی بحران ہو تو ہر شخص کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتائج سب کے سامنے ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا حکومت کا کام تھا، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے اور اس کے نتائج میں نیب کا کیا قصور ہے؟ اس سب میں نیب کہاں سے آتا ہے؟
کہ یہ سب نیب کی وجہ سے ہورہا ہے ان کی وجہ سے ہماری کاروباری سرگرمیاں ناکام ہورہی ہیں۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ معاشی سرگرمیاں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب آپ کے پاس جامع پالیسی ہو اور اس پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ افرادی قوت ہو، اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہو کہ آپ کے پاس پیسہ ہو۔انہوںنے کہاکہ معاشی پالیسیاں اپنے نتائج دکھاتی ہیں اور کاروباری سرگرمیاں کامیاب ہوتی ہیں، گیس، بجلی، پانی، امن و امان کی صورتحال ان میں سے کس شعبے میں نیب کہاں سے آتا ہے۔
ان میں سے کس جگہ پر نیب کا عمل دخل ہے جس وجہ سے ہر صبح شام الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بزنس کمیونٹی خائف ہے۔چیئرمین نے کہا کہ نیب نے آج تک ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جو ملک کی معیشت کیلئے تباہ کن یا اس پر کسی بھی طریقے سے اثر انداز ہوتا۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب انسان دوست ادارہ ہے،نیب کا اپنا ادارہ ہے، ہمارا کام بزنس کمیونٹی کو تحفظ دینا ہے اور دے رہے ہیں لیکن بزنس کمیونٹی کو ڈرایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ جب یہ شکایت ملی کہ بزنس کمیونٹی خائف ہے اور نیب ان کہ سرگرمیوں پر اثر انداز ہورہی ہے تو میں نے چیئرمین چیمبر آف کامرس سے درخواست کی کہ میں اپنا نقطہ نظر بیان کروں۔چیئرمین نیب نے کہا کہ میں نے آدھا گھنٹہ وہاں بات چیت کی اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس سے ایک شکایت موصول نہیں ہوئی جس میں تمام چیمبرز کے نمائندے شامل تھے۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ وہاں یہ اعلان کیا کہ میرے نیب کے دفتر میں پہنچنے سے پہلے ایک ڈیسک تشکیل کردیا گیا۔
ایک ڈائریکٹر کو اس کا سربراہ بنایا گیا اور ساتھ میں یہ ہدایت کی گئی کہ کسی بھی کاروباری شخص کی جو بھی شکایت ہوگی وہ فوری مجھے پیش کی جائے گی اور جب تک اس کا مداوا نہیں کیا جائے گا میں دفتر سے نہیں جاؤں گا۔انہوں نے کہا کہ اس بات کو 3 مہینے ہوگئے اب تک ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی، جب شکایت موصول ہی نہیں ہوئی تو میں اس کا ازالہ کیسے کروں گا؟۔چیئرمین نیب نے کہا کہ تمام ریجنل آفسز کو ہدایت کی گئی کہ جب بھی کسی بھی کاروباری شخص کی شکایت آئے ڈائریکٹرجنرل اسے خود دیکھے اور اگر وہ یہ محسوس کرے کہ اس کے مینڈیٹ میں کوئی چیز نہیں آرہی تو وہ مجھ سے رابطہ کریں گے اور 24 سے 48 گھنٹے میں شکایت کا مداوا کیا جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے کبھی کسی بڑے کاروباری شخص کو ہراساں نہیں کیا نہ ہی ہماری ہراساں کرنے کی کوئی پالیسی ہے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ کہا جاتا ہے نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے،نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چل سکتے ارو چلتے چلتے رہیں گے لیکن نیب اور کرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ،مجھے بتائیں کیوں ساتھ نہیں چل سکتے ، نیب اور معیشت ساتھ چل رہے ہیں اور نیب معیشت کو مکمل تحفظ دیگا ۔چیئرمین نیب نے کہا کہ آج تک کسی ایک بھی بزنس مین کی ٹیلیگراف ٹرانسفر (ٹی ٹی) میں مداخلت نہیں کی۔
پبلک آفس ہولڈر سے اگر یہ سوال کیا جارہا ہے ان کے کروڑوں روپے کیسے ملک سے باہر جارہے ہیں اور ان کے پاس کروڑوں روپے کیسے آرہے ہیں تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نیب ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہے۔انہوں نے کہاکہ نیب قانون کے مطابق کسی بھی ایم پی اے اور سینیٹر سے پوچھ سکتا ہے کہ کروڑروں روپے کہاں سے آئے اور کہاں جارہے ہیں ؟پبلک آفس ہولڈرز سے قانون کے دائرے میں رہ کر پوچھا جائیگا ۔
انہوں نے کہاکہ فالودے اور ریڑھے والے کے اکائونٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہو گی تو کیا ان سے نہ پوچھا جائے۔انہوںنے واضح کیا کہ اگر فالودے والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزکشن ہو تو خاموش نہیں رہ سکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ نیب ہر وہ قدم اٹھائے گاجو ملک کے مفاد میں ہوگا ۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، ملک کو ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے، جو ملک کے مفاد میں ہوگا وہ کیا جائے گا۔
نیب کی وابستگی ریاست کے ساتھ ہے حکومت کے ساتھ نہیں، وہ دن گزر گئے جب پوچھ گچھ نہیں تھی۔انہوں نے کہاکہ مالی معاملات کو سیاست سے آلودہ نہ کریں۔انہوںنے واضح کیاکہ کسی دھمکی کی پرواہ پہلے کی تھی نہ آئندہ کی جائیگی ۔انہوں نے کہاکہ الزام تراشی کی جارہی ہے کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کررہا ہے کچھ الزامات ایسے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔
چیئرمین نیب نے کہاکہ پھولوں کے ہار پہن کر نیب پر تنقید کی جاتی ہے کہ بغیر ثبوت گرفتار کرتے ہیں، کہا جاتا ہے پبلک کے نمائندوں کے خلاف صحیح انکوائری نہیں ہوتی، جنہیں پکڑا جاتا ہے ان سے تفتیش کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہفتوں کوشش کی جاتی ہے، کبھی اجلاس بلالیا جاتا ہے اور کبھی کمیٹیوں کی میٹنگز ہوتی ہیں،تفتیش میں تاخیر کے لیے یہ ساری باتیں کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ احتساب کی وجہ سے کبھی جمہوریت خطرے میں نہیں آتی۔
جمہوریت اعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا ہوا ہے جس میں منی لانڈرنگ بھی وجہ ہے، جب پاکستان کا مسئلہ عالمی سطح پر ہوگا تو نیب ان چند لوگوں کی پرواہ نہیں کریگا، الزام تراشی اپنی جگہ لیکن ملک کا مفاد اپنی جگہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب ملکی مفاد کو ترجیح دے گا، گرے لسٹ سے پاکستان کو نکلوانا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج درست کرنا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر نیب کے حکومت کے ساتھ اتنے ہی دوستانہ مراسم ہوتے تو حکومت سے بجٹ منظور کرانے میں کیوں مشکل درپیش آتی، ایک طرف وہ لوگ جو نیب کے ریڈار پر ہیں، ان کے وکلا کی فیسیں کروڑوں میں ہے اور ہمارے نیب پراسیکیوٹر لاکھ، دو لاکھ روپے لے رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ نیب نے ہر اقدام ملکی مفاد میں لیا ہے جو ملک کے مفاد میں ہوگا آئندہ بھی کرونگا ۔انہوںنے کہاکہ حکومت سمیت کوئی بھی نیب کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔
حکومت اور کسی بھی ادارے کی ڈکٹیشن لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ انہوںنے کہاکہ نیب کو ڈکٹیشن کا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔چیئر مین نیب نے کہا کہ عارف حبیب اورمیاں منشاکے خطوط نیب کے پاس موجود ہیں جس میں انہوں نے نیب کی کارکردگی کوسراہا، کیا عارف حبیب اور میاں منشا بزنس کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتے؟کیا وہ ملک کے سب سے بڑے بزنس مین نہیں ہیں؟ اگر شکایت ہوتی تو سب سے پہلے انہیں ہوتی۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ بزنس کمیوٹی کو کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے، تاجروں کونیب میں طلب نہیں کیا جائیگا، انھیں بلانے کے بجائے سوالنامہ دیا جائیگا۔ انھوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو تحفظ دیں گے، اطمینان سے بزنس کریں۔ بزنس مین کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان پرکسی قسم کادباؤ نہیں ہے، انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی بیان دیتا ہوں کہ آئندہ کسی بزنس مین کونیب میں نہیں بلاؤں گا،ہم انہیں سوالنانہ بھیج دیں گے اور وہ ان کے جوابات دیدیں گے ۔
ان کی پلی کو بھی زیر غور لایا جائیگا اور ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ بادی النظر میں کیس بنتا ہے تو پھر انہیں تکلیف دی جائیگی۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی تاجر کو نہ تو ریجنز بلائیں گے اور نہ ہی ہیڈ آفس بلائیگا ، وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں لیکن ایک التماس ہے کہ آپ قانون کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔انہوںنے کہاکہ اگر کسی بزنس مین کو کوئی شکایت ہے تو مجھے بتائیں اگر آپ میرے پاس نہیں آسکتے ہیں تو میں آپ کے پاس چل کر آنے کیلئے تیار ہوں ۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہ کریں تو کیا کریں؟انہوں نے کہا کہ نیب وہ کرے گا جو قانون کے مطابق درست ہو گا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ پاکستان غریب ملک ہے جس کا قرض 100 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ ہمارا کام کاروباری حضرات کو تحفظ دینا ہے اور وہ ہم دے رہے ہیں لیکن کم بجٹ اور کم وسائل پر یہ کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو احتساب کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اگر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتے تو لوگ ملک سے نہ بھاگتے، نیب ثبوت ہونے کے بعد کسی پر ہاتھ ڈالتا ہے۔انہوں نے کہاکہ بیورکریٹس اور خواتین کو بھی نیب دفاتر نہیں بلایا جائیگا،گزشتہ چند ماہ سے یہ ہدایات دی ہوئی ہیں کہ کسی کوہتھکڑی نہیں لگے گی۔علیم خان سے متعلق سوال پر چیئرمین نیب نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما علیم خان کی ضمانت کے خلاف اپیل زیر غور ہے۔ پریس کانفرنس کے دور ان جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ خلیجی ممالک کے اہم رکن نے پانی اور سیوریج کے مسائل پر رابطہ کیا اور کہا کہ نیب کے توسط سے مسائل کے حل کیلئے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، ہم نے ان سے معذرت کرلی کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں۔