اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، کالم نگار ،اینکر پرسن جاوید چوہدری نے پرسوں چیئرمین نیب جاوید اقبال سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے دوران ایک موقع پر جاوید چوہدری نے چیئرمین نیب سے پوچھاکیا آپ کو کوئی تھریٹ ہے؟“ فوراً جواب دیا ”بے شمار ہیں‘ہماری ایجنسیوں نے چند ماہ قبل دو لوگوں کی کال ٹریس کی۔
ایک بااثر شخص دوسرے بااثر شخص سے کہہ رہا تھا جسٹس کو پانچ ارب روپے کی پیشکش کر دو‘ دوسرے نے جواب دیا یہ پیسے لینے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ پہلے نے کہا پھر اسے ڈرا دو‘ دوسرے نے جواب دیا‘ ہم نے اسے کئی بار ڈرایا‘ ہم نے اس کی گاڑی کا پیچھا بھی کیا‘ بم مارنے کی دھمکی بھی دی لیکن یہ نہیں ڈر رہا‘ پہلے نے کہا‘ اوکے پھر اسے اڑا دو“ ۔میں نے پوچھا ”یہ کون لوگ تھے“ جسٹس صاحب نے جواب دیا ”یہ میں آپ کو چند ماہ بعد بتاؤں گا“ میں نے اصرار کیا تو انہوں نے صرف اتنا بتایا ”یہ لینڈ گریبرز اور سیاستدانوں کا مشترکہ منصوبہ تھا“ میں نے عرض کیا ”آپ کو پھر احتیاط کرنی چاہیے“ جسٹس صاحب نے جواب دیا ”میں نے احتیاط شروع کر دی لیکن احتیاط بے احتیاطی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی‘ حکومت نے مجھے منسٹر کالونی میں گھر دے دیا لیکن یہ گھربحریہ ٹاؤن میں میری ذاتی رہائش گاہ سے زیادہ خطرناک بن گیا۔میں نے ابھی وہاں صرف دو کمرے ٹھیک کئے تھے اور اپنی چند فائلیں وہاں رکھی تھیں‘ میں لاہور گیا ہوا تھا‘ میری غیر موجودگی میں کسی نے گھر کی پچھلی کھڑکی کا جنگلہ اتارا‘ اندر داخل ہوا‘ تلاشی لی اور فائلیں چوری کر کے غائب ہو گیا“ وہ رکے‘ میں نے پوچھا ”اور یہ واقعہ منسٹر کالونی میں پیش آیا“
وہ ہنس کر بولے ”ہاں منسٹر کالونی کے بنگلہ نمبر 29 میں اور یہ پاکستان کی محفوظ ترین جگہ ہے اور پولیس فنگر پرنٹس کے باوجود مجرم تک نہیں پہنچ سکی“ ۔یہ میرے لئے وارننگ تھی چنانچہ میں اب اس گھر میں نہیں رہ رہا‘ میں سیکورٹی کی وجہ سے کبھی اپنی بہن کے گھر رہتا ہوں‘ کبھی بیٹی کے گھر چلا جاتا ہوں اور کبھی اپنے کسی عزیز کی رہائش گاہ پر‘ میں نے کون سی رات کس گھر میں گزارنی ہے میں کسی کو نہیں بتاتا‘ میں احتیاطاً اپنا سٹاف بھی ساتھ لے جاتا ہوں تاکہ ہم لوگ زیادہ ہوں اور اکٹھے ہوں“ میں نے ان سے پوچھا ”آپ کو کس سے خطرہ ہے“ وہ بولے ”میں نہیں جانتا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میں اب سب کا ٹارگٹ ہوں۔یہ تمام لوگ مجھے برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔