اسلام آباد(نیوزڈیسک) وزیراعظم عمران خان، اسد عمر اور تحریک انصاف کے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق خیالات متضاد رہے ہیں۔عمران خان پہلے ایمنسٹی اسکیم کے حامی تھے، پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں انہوں نے اس اسکیم کی ڈٹ کر مخالفت کی لیکن جب انہیں خود حکومت ملی تو اس اسکیم کے ایک مرتبہ پھر حامی ہو گئے۔ عمران خان، تحریک انصاف اور
اس کے رہنما پچھلی حکومتوں کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے شدید مخالف رہے ہیں، تاہم حکومت میں آکر تحریک انصاف نے خود ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ایمنسٹی اسکیم سے عمران خان کے لو ہیٹ ریلیشن شپ کی کہانی اور بھی پرانی ہے۔عمران خان نے 1997 کے الیکشن میں اپنا لندن کا فلیٹ ظاہر نہیں کیا تھا،2000 میں جب پرویز مشرف نے ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تو عمران خان نے اس اسکیم کے تحت اپنا لندن کا فلیٹ ظاہر کر دیا۔پیپلز پارٹی کے دور میں 10 مارچ 2012 کو عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کالا دھن سفید کرنے کے لیے ہے، زرداری سمیت نیچے تک لٹیروں کی حکومت بدمعاشوں کو تحفظ دینا چاہتی ہے۔10 مارچ 2013 کو پیپلز پارٹی ہی کے دور میں عمران خان نے کہا کہ اگر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم منظور کی گئی تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔یکم جنوری 2016 کو نواز شریف دور میں انہوں نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم حکمران اپنے مفادات کے لیے جاری کرتے ہیں۔22 جنوری 2016 کو انہوں نے کہا کہ نویں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ٹیکس چوروں کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دینے کے لیے ہے۔27 فروری 2016 کو انہوں نے کہا کہ حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ناکام ہونے سے پی ٹی ا?ئی کا موقف درست ثابت ہو گیا۔اس کے بعد 6 اپریل 2018 کو عمران خان نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی بھی بھرپور مخالفت کی۔سوال یہ ہے کہ اگر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے کالا دھن سفید ہوتا تھا تو اب ایسا کیوں نہیں ہوگا؟ ایک اسکیم پہلے اچھی، پھر بری، اور پھر سے اچھی کیسے ہو سکتی ہے؟۔