اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نواز شریف پنجاب اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم نہ دینے پر اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے ناراض ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شہباز شریف کے بعد اب حمزہ شہباز کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ خطرے میں پڑگئی ہے جس کی وجہ بلدیاتی بل پر اپوزیشن کی ناقص حکمت عملی کو قرار دیا جارہا ہے۔
وفاق میں چیئرمین پی اے سی کی تبدیلی کے بعد پنجاب میں بھی لیگی ارکان نے حمزہ شہباز کو چیئرمین پی اے سی بنانے پر خاموشی اختیارکرلی ہے۔بلدیاتی بل پر اپوزیشن کی کمزور حکومت عملی پر مسلم لیگ ن کو سبکی کا سامناکرنا پڑا جس پر نواز شریف حمزہ شہباز سے ناراض ہوگئے ہیں،حمزہ شہباز کے رویے سے کئی ن لیگی اراکین بھی نالاں ہیں۔نواز شریف نے حمزہ شہباز سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی بل پر حکومت کو کو ئی ٹف ٹائم نہیں دیا گیا۔ دوسری جانب نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی ذوالفقار راحت نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کو 6 ہفتے کی دی گئی ضمانت ٹارگٹڈ تھی اور پلان کے تحت دی گئی کیونکہ اس میں کوئی بیماری کا چکر نہیں تھا،نواز شریف 6ہفتے جیل سے باہر رہے اور اس دوران نواز شریف نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے میٹنگ کی۔انہوں نے اپنا فنانس سیٹ کیا اور اس کے علاوہ فضل الرحمن اور آصف زرداری سے بھی ملاقاتیں کیں،ان ملاقاتوں میں انہوں نے پلان بھی کیا اور ملک سے باہر کچھ لوگوں سے بھی بات کی۔تاہم شہباز شریف کو باہر بھیجنا نواز شریف کا آئیڈیا نہیں تھا۔جس میں انہیں موقع دیا گیا کہ وہ باہر جا کر کچھ معاملات سیٹ کریں اور پیسے دے کر مسئلہ حل کریں۔
ذوالفقار راحت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے تین پلان تھے۔پہلا پلان یہ تھا کہ اگر شہباز شریف نے معاملات سنبھال لیے تو وہ بھی باہر رہیں گے اور میں بھی کچھ عرصہ کے لیے باہر رہوں گا جب کہ حکومت کو موقع دیا جائے گا،جب کہ دوسرا پلان یہ تھا پہلا پلان کامیاب ہونے کی صورت میں نواز شریف لندن میں جا کر خاموش ہو جائیں گے اور کہا جائے گا کہ حکومت نئی نئی ہے اس لیے ہم انہیں کام کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔جب کہ تیسرا پلان یہ تھا کہ اگر مجھے لندن نہ جانے دیا گیا تو پھر دمادم مست قلندر ہو گا۔ن لیگ میں کی گئی حالیہ تبدیلیاں بھی پلان سی کا حصہ تھا۔ذوالفقار راحت کا کہنا تھا کہ ن لیگ میں جتنے لوگوں کو بھی عہدے دئیے گئے وہ نواز شریف کے لوگ ہیں اور ایک بار پھر سے مزاحمتی بیانیے کو اپنانے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔