کراچی(این این آئی)ملک میں نئی حکومت کے قیام کے باوجود فولاد سازی کے سب سے بڑے کارخانے پاکستان اسٹیل ملز میں تبدیلی نہ آسکی،ادارے کی بحالی میں غیر ضروری تاخیر کے باعث واجب الادا رقم اور نقصانات 490ارب روپے سے تجاوزکرگئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت اپنے دور اقتدار کے 8ماہ میں اسٹیل مل کے مستقبل کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔چینی اور روسی کمپنیوں کی جانب سے اسٹیل مل کی بحالی کی پیشکشوں کے باوجود
اب تک ادارے کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔گزشتہ 8ماہ کے دوران اسٹیل مل کو واجبات اور نقصانات کی مد میں مزید30ارب روپے خسارہ کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ادارے کو یومیہ کی بنیاد پر 12کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔اسٹیل مل پر جولائی 2008سے اپریل 2019 تک واجبات و نقصانات کی مد میں 460ارب روپے قرض چڑھ چکا ہے جبکہ 30ارب روپے کا اضافہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے دوران ہوا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل مل نے جون 2008 میں 10 ارب روپے کا منافع حاصل کیا تھا،تاہم دیکھتے ہی دیکھتے منافع میں جانے والی یہ مل 490ارب کی مقروض ہوگئی ہے۔سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ دور میں بھی اسٹیل مل کو نظر انداز کرنے کی پالیسی برقرار ہے۔ 8ماہ کے دوران نہ تو ادارے میں کسی مستقل سربراہ کا تقرر کیا جاسکا اور نہ ہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو کی جاسکی۔ادارے میں مبینہ کرپشن کرنے والے عناصر کے احتساب میں بھی کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین اپنے واجبات کی وصولی کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جبکہ موجودہ ملازمین کو باقاعدہ تنخواہوں کی ادائیگی کا سلسلہ بھی شروع نہیں کیا جاسکا۔ اسٹیل مل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اسٹیل کی صنعت سے متعلق پروفیشنلز (میٹالورجیکل) ہی موجود نہیں ہے جبکہ بورڈ کو ایڈ ہاک بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔8 ماہ کے دوران حکومت یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکی ہے کہ ادارے کو نجکاری میں دینا ہے یا پھر خود بحال کرنا ہے،تاہم ذرائع اس حوالے سے قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ ایک بار پھر اسٹیل مل کو نجکاری کی فعال فہرست میں ڈالا جاسکتا ہے۔