پشاور(این این آئی)عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ ملک میں احتساب کا دہرا معیار رائج ہے، عدلیہ نے نواز شریف اور جہانگیر ترین کیلئے الگ الگ قوانین بنا رکھے ہیں، ملک کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، جس دن ملک سے مڈل کلاس ختم ہو گئی تو خونی انقلاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا،مہمند واقعے میں ملوچ مکروہ چہروں کی شناخت قوم کے سامنے لائی جائے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے باچا خان مرکز پشاور میں پارٹی کی مرکزی کونسل کے انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے چھٹی بار مرکزی صدر منتخب ہونے پر تمام کونسل ارکان کا شکریہ ادا کیا اور نو متخب مرکزی کابینہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ چار سال کابینہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سخت محنت کرنا ہو گی، اسفندیار ولی خان نے امید ظاہر کی تمام کابینہ ممبران پارٹی آئین و ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے عوام کی خدمت اور پارٹی کی مزید فعالیت کیلئے میدان میں مصروف عمل رہیں گے، ملکی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے والوں سے سوال کیا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط؟ ملک انتہائی مخدوش حالت میں ہے،کپتان نے سیاست سے شائستگی ختم کر کے گالی گلوچ کو پروان چڑھایا،سیاسی مخالفین کو سیاسی جواب دینے کی بجائے انہیں گالیاں دی گئیں،انہوں نے کہا کہ عمران خان جس زرداری کو چور کہتے رہے انہی کے حفیظ شیخ کو خزانے پر بٹھا دیا ہے، جبکہ تمام اہم وزارتیں پیپلزپارٹی سے آئے پنچھیوں کے پاس ہیں، اسفندیار ولی خان نے کہا کہ تحریک انصاف میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو کسی وزارت کو چلانے کا اہل ہو،انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ 16وزراء ایسے ہیں جو عوام کے منتخب نمائندے ہیں نہ ہی انہوں نے پارلیمنٹ میں حلف لیا ہے اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو ماضی اور حال کی حکومتوں میں کیا فرق رہ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر انتقام کا دور دورہ ہے، نیب تحریک انصاف کی چھتری تلے آنے والوں کو فرشتہ ڈکلیئر کر کے سیاسی مخالفین کو گھیر رہا ہے،انہوں نے کہا کہ زرداری کی بہن جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو سکتی ہے تو علیمہ باجی کے راستے میں کون رکاوٹ ہے؟ پاکستان میں دو طرح کا اشرافیہ ہے جس میں سے ایک نیب زدہ اور دوسرا نیب زادے ہیں،کرسی کی خاطر حکومت کی گود میں بیٹھنے والے ضمیر فروش نیب زادوں کی کیٹیگری میں آتے ہیں،
انہوں نے کہا کہ بلا امتیاز اور شفاف احتساب کیلئے نیب پشاور بی آر ٹی، ملم جبہ اراضی سکینڈل اور بلین ٹری سونامی جیسے میگا کرپشن سکینڈل کے اصل محرکات پر ہاتھ ڈالے،انہوں نے کہا کہ کرپشن کے ثبوت مانگنے والوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ثبوت اکٹھے کرنا نیب کا کام ہے جس پر اربوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ کپتان جن 5ارب درختوں کا ذکر کر رہے ہیں ان کا نام و نشان تک نہیں،انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ بنانے والے کے اپنے بچے یورپ میں پل رہے ہیں،
عمران خان اپنی بیٹی اور بیٹوں کو بھی ریاست مدینہ کا حصہ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان آٹھ ماہ میں ناکام ہو چکے ہیں،الیکشن سے قبل جو بھی وعدے کئے گئے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہ ہوا جبکہ غریب عوام کا جینا دشوار کر دیا گیا، مہنگائی کے ذریعے غربت کی بجائے غریبوں کو ختم کرنے کے پلان پر عمل درآمد جاری ہے،قرضوں پر لعنت بھیجنے والا شخص دنیا بھر میں کشکول لئے بھکاری بن کر پھر رہا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں جتنا قرضہ سابق حکومتوں نے لیا اس سے دوگنا قرضہ صرف موجودہ 9ماہ میں لیا گیا ہے، اسفندیار ولی خان نے کہا کہ 65سال تک صوبوں کے حقوق پر قابض رہنے والا وفاق پہلے کبھی دیوالیہ نہیں تھا
لیکن اب اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکز کو ملک دیوالیہ نظر آنے لگا ہے،ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پختونوں کو شناخت دلائی اور اپنے وسائل پر اپنا اختیار حاصل کیا جو اب بعض قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہا،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے اس لئے وہ اٹھارویں ترمیم چھیڑ نہیں سکتے جس کے بعد اب صدارتی نظام لانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ صدارتی نظام آیا تو ملک باقی نہیں رہے گا، پنجاب کو پاکستان تصور کرنے کا دور گزر چکا ہے کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے اور 18ویں ترمیم کی کسی ایک شق کو بھی چھیڑا گیا تو سب سے پہلے میں سڑکوں پر نکلوں گا،انہوں نے عمران خان کی منطق پر تعجب کا اظہار کیا کہ ملک میں پیسہ نہیں اور پچاس لاکھ گھر بنانے کی دعوے کئے جا رہے ہیں،
پنجاب کو پاکستان تصور کرنے کی پالیسی کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گی، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے قبائلی علاقوں با لخصوص وزیرستان میں تباہ ہونے والے گھر و املاک تعمیر کی جائیں،انہوں نے مہمند میں ہونے والے واقعے پر بھی دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کرنے والے بھیڑیوں کی شناخت سے قوم کو آگاہ کیا جائے، انگلیاں کسی اور جانب اشارہ کر رہی ہیں جو ملک کیلئے تباہی کا باعث بنے گا،اسفندیار ولی خان نے قبائلی انضمام بارے کہا کہ صوبے میں ضم ہونے کے بعد اختیارات صوبائی حکومت کو ملنے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا وزیر اعلیٰ بھی بے اختیار ہے اور قبائلی اضلاع کا انتظام گورنر کے حوالے کر دیا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نے قبائلی اضلاع میں جلسوں کا انعقاد کیا تو باجوڑ میں دفعہ144لگا دی گئی جبکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ انتخابی مہم چلانے کیلئے قبائل میں جلسے کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مسلط وزیر اعظم نے تمام اداروں کی طرح الیکشن کمیشن کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر الیکشن کمیشن کو سانپ سونگھ گیا ہے۔