اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے وفاقی کابینہ میں رد و بدل سے متعلق سوال کیا جس پر میجر جنرل آ صف غفو ر نے اسد عمر کے استعفیٰ اور وفاقی کابینہ میں رد و بدل کے حوالے سے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
انہوں نے کہاکہ وہ سیاسی نوعیت کے سوالوں پر کوئی جواب نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف انہی سوالوں کے جواب دیں گے جن کا قومی سلامتی کے امور سے ہو گا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور ملک نے موجودہ سیکیورٹی صورتحال، پاک،بھارت کشیدگی اور دیگر امور پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے کشیدگی سے متعلق 22 فروری کو بات چیت کی تھی جب انہوں نے ہم پر پلوامہ کے الزامات عائد کیے تھے، میں نے اس وقت وجوہات کا ذکر کیا تھا کہ پاکستان کس طرح اس حملے کے ساتھ ملوث نہیں۔ ترجمان پاک فوج نے کہاکہ بھارت کو یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے تحقیقات کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کریں، اس کے بعد 26 فروری کی صبح انہوں نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جسے ہم نے ناکام بنایا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انہیں میں نے نوٹس بھی دیا تھا کہ اب ہمارے جواب کا انتظار کریں کیونکہ میرا مطلب تھا کہ ہم جواب دینے کیلئے مجبور ہوں گے،27 فروری کو بھرپور جواب دینے کے بعد ان کے 2 جہاز گرانے اور ایک پائلٹ گرفتار کرنے کے بعد بات چیت کی اور تفصیلات بتائی تھیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ بھارت نے کہانی بنائی کہ پہلے پاکستان نے دو پائلٹ بتائے پھر ایک کردیا، جب جنگ ہورہی ہے تو اسٹوری اپ ڈیٹ ہورہی ہوتی ہے، اسی بنیاد پر پہلے کہا کہ دو پائلٹ تھے لیکن جب صورتحال واضح ہوئی تو اس کی وضاحت کی کہ ایک پائلٹ پکڑا گیا۔انہوں نے کہا کہ 28 فروری کو بھارت میزائل فائر کرنے کی تیار کر رہا تھا، بھارت اپنے میڈیا کو بتائے ہم نے کیا جواب دیا، اس رات ایل او سی پر کیا ہوا۔
ہماری فائر پلاٹون نے اْن کی گن پوزیشن کو کیسے نشانہ بنایا؟، کتنی گن پوزیشن شفٹ کرنا پڑیں’، کتنے فوجی مارے گئے’، یہ باتیں بھارت میڈیا کو بتائے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت میں الیکشن چل رہے ہیں اس میں بہت باتیں ہوتی ہیں، بھارت کہتا ہے ہم نے دیوالی پر ایٹم چلانے کیلئے نہیں رکھا۔ انہوںنے واضح کیا کہ جب ملکی دفاع کی بات ہو تو ہم ہر قسم کی صلاحیت استعمال کرسکتے ہیں، اگر دل ہے تو بھارت اپنی صلاحیت آزما لے لیکن پہلے نوشہرہ کی اسٹرائیک کا تجربہ یاد رکھے۔
انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو گزرے 2 ماہ ہوگئے تاہم بھارت ان گنت جھوٹ بولے جارہا ہے، ہم نے ذمہ دار ملک کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی لفظی اشتعال انگیزی کا بھی جواب نہیں دیا، یہ نہیں کہ ہم جواب نہیں دے سکتے، وہ جھوٹ بولیں اور ہم ان کا جواب دیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جھوٹ کو سچ کرنے کیلئے بار بار جھوٹ بولا جاتا ہے، سچ ایک مرتبہ کہا جاتا ہے تو ہم نے ان کے ان جھوٹوں کا بھی جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کی فضائی کارروائی ناکام بنائی، ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ ہم نے میڈیا کو بھی اس جگہ کا دورہ کروایا اور اگر اب بھی انہیں تسلی نہیں تو بھارت اپنا میڈیا یہاں بھیج دے۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہمارے ایف 16 گرانے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ ایسا کچھ تھا ہی نہیں کیونکہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔انہوں نے کہاکہ ایف 16 تو بڑی بات ہے موٹر سائیکل لگ جائے تو اس کی خبر بھی نہیں چھپتی۔
آپ کے امریکا سے بہت اچھے تعلقات ہیں، امریکا سے کہیں کہ پاکستان کے ایف 16 طیارے گن لیں۔بالاکوٹ پر بھارتی دعوئوں پر انہوں نے کہاکہ آپ نے رات میں کارروائی کی کوشش کی ہم نے دن میں کارروائی کی اور جہاں ہمارے میزائل گرے وہاں کون موجود تھا یہ بھی بتایا جائے۔ ترجمان پاک فوج نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا رویہ تبدیل کرنا ہے لیکن آپ تو یہ نہیں کرسکے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم نے آپ میں تبدیلی ڈال دی ہے لیکن آپ ہمارے اندر تبدیلی ڈالنا چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں کرسکتے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ 1971 ہے، نہ وہ فوج اور نہ وہ حالات، اگر 1971 میں ہمارا آج کا میڈیا ہوتا آپ کی سازشوں کو بے نقاب کرسکتا، وہاں کے حالات اور زیادتیوں کی رپورٹنگ کرتا تو آج مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ملک کی سیکیورٹی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی 25 سے 30 سال کے درمیان ہے۔
ان بچوں نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد ملک میں دہشت گردی، آپریشن اور امن و امان کی صورتحال دیکھی۔انہوںنے کہاکہ 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا، ہماری جی ڈی پی بہت اچھی تھی، ہمارے یہاں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر تھی، بین المذاہب ہم آہنگی تھی لیکن پھر ایسا ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات ہوئیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ 4 ایسی وجوہات ہیں جس سے یہ سب ہوا، پہلا یہ کشمیر کا معاملہ کیونکہ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے اور یہ ہمارے نظریے کے ساتھ ہے۔
ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے کہ کشمیر کو ہم نے آزاد کرانا ہے، اس کیلئے کئی جنگیں ہوئیں، دوسرا یہ پاکستان کی ایک جغرافیہ ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خطے میں افغانستان میں 40 سال سے پہلے سوویت یونین آئی پھر نائن الیون کے بعد امریکی فورسز آئیں تو خطے کے اندر بین الاقوامی پراکسیز چل رہی ہیں جس کے نتیجے میں 1979 کے بعد افغان جنگ کے ساتھ ایک جہاد کی ترویج شروع ہوئی، ساتھ ہی ایران میں انقلاب آیا جس کا ہمارے معاشرے پر یہ اثر ہوا کہ مدرسے بڑھنے شروع ہوگئے ان میں جہاد کی تر ویج زیادہ ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو جنگ چل رہی تھی اسے جائز قرار دے کر اس حساب سے فیصلے لیے گئے اور اس طریقے سے پاکستان میں ایک جہاد کی فضا قائم ہوگئی، اس کے علاوہ خطے میں دوسری پراکسیز تھیں، سعودی عرب اور ایران ان کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے اور عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں شامل ہونا شروع ہوگئی۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ11 ستمبر کے بعد جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اس سے ہمارے خطے میں طاقت کی بنیاد پر مقابلہ جیوپولیٹیکس کے ساتھ ساتھ جیو اکانومی پر بھی شروع ہوگئی۔
امریکہ کے اپنے مفادات ہیں، چین کے اپنے، بھارت کے اپنے اور ہمارے اپنے مفادات ہیں تو بین الاقوامی قوتوں نے چاہا کہ ان کی سوچ اور ان کے فائدے کے مطابق پاکستان کی پالیسی بنانے پر مجبور کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس حساب سے ایک ماحول بنتا ہے کہ کس طریقے سے بین الاقوامی قوتیں اس فریم ورک میں لانے کیلئے کوشش کرتی ہیں ،طاقت کے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں، کس کس قسم کے حملے ہوتے ہیں جنہیں ہم ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار کہتے ہیں وہ چل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں جو اسلام کے خلاف باتیں شروع ہوئی ہیں، اس پر یہاں کے عوام کے دل میں درد ہوتا ہے، ان چیزوں کی وجہ سے 4 دہائیاں پاکستان کو اس دہانے پر لے کر آئیں۔ان تمام چیزوں پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ افغانستان سے پاکستان میں جب دہشت گردی آئی تو پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بنایا جبکہ 2016 میں آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے جو 40 سال پہلے بویا وہ کاٹا بھیْ
جس پر کہا گیا کہ فوج نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان بہت عرصہ پہلے فیصلہ کرچکی تھی کہ ہم نے اپنے معاشرے کو انتہاپسندی سے پاک کرنا ہے، جو کالعدم تنظیمیں ہیں ان سے متعلق یکم جنوری کو فیصلہ ہوگیا تھا لیکن مالیاتی مسائل تھے، جس کے بعد فروری میں اس کا دوبارہ اعلان کیا گیا اور فنڈز بھی جاری کیا۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ان تنظیموں کا ہسپتال، مدرسے اور فلاحی کاموں کو حکومت نے اپنے زیر اثر لینے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کا تعلیمی نظام یہ ہے کہ ہمارا نمبر دنیا میں 129 پر ہے اور ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدرسے ہیں جس میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں 70 فیصد ایسے مدرسے ہیں جہاں ایک ہزار ماہانہ خرچ ہوتا ہے جبکہ 25 فیصد ایسے ہیں جس میں تھوڑا زیادہ خرچ ہوتا ہے اور 5 فیصد مدرسوں کا انفرااسٹرکچر زیادہ اچھا ہے جہاں 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائیگا اور حکومت نے ان تمام مدرسوں کو وزارت تعلیم میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں 25 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو 1980ء میں 2861 ہوگئی اور آج 30 ہزار سے زیادہ ہے، پاکستان میں مدارس کھولے گئے اور جہاد کی ترویج کی گئی۔
اس وقت تو کسی نہ اعتراض نہیں کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عسکریت پسندی کی طرف لے جانے والے مدارس کی تعداد 100 سے بھی کم ہے، بیشتر مدارس پرامن ہیں، مدرسے کے ایک طالبعلم نے آرمی میں کمیشن بھی حاصل کیا ہے لیکن ان مدارس کے بچوں کے پاس ملازمت کے کیا مواقع ہوتے ہیں، اسلام کی تعلیم جیسی ہے چلتی رہے گی لیکن نفرت پر مبنی مواد نہیں ہوگی، دوسرے فرقے کے احترام پر زور دیا جائے گا۔
نصاب میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے مضامین بھی ہوں گے، ہر مدرسے میں چار سے 6 مضامین کے اساتذہ درکار ہوں گے، اس سے متعلق بل تیار ہورہا ہے، پھر نصاب پر نظرثانی ہوگی، دہشت گردی کے مقابلے سے فارغ ہورہے ہیں، اب انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔پراکسیز کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان اس میں اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہمارا دفتر خارجہ بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ہم نے پاکستان میں وہ ماحول دینا ہے جس سے سوشل اکنامک سرگرمیاں ہوں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ نائن الیون سے لے کر آج تک پاکستان نے کائنیٹک آپریشن کیے، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں، القاعدہ، داعش، ٹی ٹی پی وغیرہ جس کا بھی نام لیں، ہم نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کائنیٹک آپریشن کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آج ہم ثبوت اور لاجک کے ساتھ کہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر کسی قسم کا کوئی منظم دہشت گردی کا نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جب یہ موومنٹ شروع ہوئی تو سب سے پہلے ان سے میری بات ہوئی، آرمی چیف نے کہا کہ یہ غلط بات بھی کہیں تو ان پر سخت ہاتھ نہیں رکھنا کیونکہ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے شروع سے جنگ دیکھی ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پی ٹی ایم کے ساتھ ملاقات ہوئی تو محسن داوڑ نے اگلے دن کہا کہ آپ نے اعلان کردیا ہے، میری محسن داوڑ، ان کے رہنماؤں سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ان کے 3 مطالبات ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ بارودی سرنگیں (مائنز) ہیں چونکہ ان علاقوں میں جنگ ہوئی ہے، وہاں دیسی ساختہ بم پڑے ہیں، یہ جائز مطالبہ تھا، اس پر ہم نے کام بھی کیا اور 48 ٹیمیں تعینات کی اور انجینئرز کی ان ٹیموں نے 45 فیصد علاقے کو مائنز سے کلیئر کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج جن علاقوں کو کلیئر کروانے جاتی ہے وہ علاقے موت ہیں اور اس حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی گئی کہ یہاں دیسی ساختہ بم موجود ہیں یہاں کا رخ نہ کریں، بچوں اور جوانوں کو بتایا گیا کہ اس کی ساخت کیا ہے۔
نظر آئے تو اسے ہاتھ نہ لگائیں ہمیں اطلاع دیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب سے ان 48 ٹیموں نے یہ کلیرنس آپریشن شروع کیا ہے تو اس کے باوجود پاک فوج کے 101 جوان شہید ہوئے ہیں، یہ کس لیے شہید ہوئے، یہ سب اپنا کام کرتے ہوئے شہید ہوئے لیکن اس لیے کام کیا کیونکہ مطالبہ بھی جائز تھا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں، اس پورے آپریشن کے دوران 6 ہزار پاک فوج کے جوانوں نے جانوں کا نذانہ دیا۔
یہ جو پشتونوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں یہ اس وقت کدھر تھے جب لوگوں کے گلے کاٹے جارہے تھے، آج جب بحالی کا کام شروع ہوگیا تو تحفظ کی بات کر رہے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہاکہ تیسرا ان کا مطالبہ لاپتہ افراد کا تھا، اس سلسلے میں کمیشن بنایا گیا جس کے کیسز سنے جارہے ہیں، یہ مطالبات ان کے نہیں بلکہ ان بھائیوں کے ہیں جو ان علاقوں میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر چندے کی تفصیلات دی گئی ہیں لیکن اس تفصیل سے ان کے پاس بہت پیسہ ہے۔
انہیں این ڈی ایس، را نے کتنے پیسے دئیے وہ بتایا جائے۔انہوں نے کہاکہ میں پی ٹی ایم سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے پاس کتنا پیسہ ہے، این ڈی ایس نے آپ کو احتجاج رکھنے کیلئے کتنے پیسے دیے، اسلام آباد دھرنے کیلئے را نے کتنے پیسے دیے اور یہ کیسے پہنچے، 8 مئی 2018 کو جلال آباد میں طورخم ریلی کیلئے کتنے پیسے لیے اور وہ کہاں سے آئے، حوالہ ہنڈی کے ذریعے دبئی سے کتنا پیسہ آرہا ہے، 31 مارچ 2019 کو این ڈی ایس نے کتنے پیسے دیے اور وہ کیسے آپ تک پہنچے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جن لوگوں کے مسائل کو بنیاد بنا کر کام کر رہی ہے اس کا وقت ختم ہوگیا، آپ فوج سے کس بدلے کی بات کر رہے ہیں، کوئی ریاست سے لڑائی نہیں کرسکتا، جن لوگوں کو آپ ورغلا رہے ہیں، ان کے دکھوں کا احساس ہے ورنہ آپ لوگوں کو ڈیل کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان جو افغانستان میں بیٹھی ہے اس کی لسٹ ہمیں دے دیں، پھر ہم ڈھونڈیں گے کہ مسنگ پرسنز کہاں گئے؟۔
میجر جنرل آصف غفور نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی ایم کا بلوچ علیحدگی پسندوں سے کیا تعلق ہے، لر اور بر سے اپ کا کیا تعلق ہے، ٹی ٹی پی آپ کے حق میں کیوں بیان دیتی ہے اور ٹی ٹی پی اور آپ کا بیانیہ ایک ہی کیوں بنتا ہے؟۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ افغانستان میں شہید ہوئے، حکومت پاکستان افغان حکومت سے بات چیت کر رہی ہے تو آپ کس حیثیت میں اْن سے (افغان حکومت) بات کررہے تھے کہ لاش حکومتی نمائندوں کو نہ دی جائے۔
آپ نے کس حیثیت میں کہا کہ قبیلے کو میت دی جائے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم سے کوئی اعلان جنگ نہیں، حکومت ان سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن وہ بھاگ بھاگ کر امریکہ، افغانستان اور بلوچستان چلے جاتے ہیں، مسائل فاٹا میں ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہاں کیمپ لگائیں اور بولیں حکومت اور فوج آئے پھر دیکھیں کون نہیں جاتا، ہم وہاں جاتے ہیں کام کرتے ہیں لیکن یہ کہیں اور گھوم رہے ہیں۔کیا قانون اور آئین فوج کیلئے ہے باقی لوگوں کیلئے نہیں ؟۔میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس کے اختتام پر پشتو میں بھی بات کی۔