اسلام آباد (این این آئی) سینٹ نے بینکنگ آر ڈیننس ترمیمی بل اور بچوں کی کم عمری میں شادی کے خلاف بل کثرت رائے سے منظور ی دیدی۔ پیر کو بینکنگ آرڈیننس ترمیمی بل سینیٹ سے پاس کرلیا۔بل سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پیش کی۔ رضا ربانی نے کہاکہ یہ پاکستان کی محنت کشوں کی طویل جدوجہد تھی،مارشل لاء حکومت نے ٹریڈ یونینز پر پابندی لگائی تھی۔رضا ربانی نے کہاکہ سینیٹ نے آج بینکنگ کمپنیات آرڈیننس کا بل منظور کر کے تاریخی فیصلہ دیا ہے۔
رضا ربانی نے کہاکہ آئی ایل او نے بھی نوٹس لیا تھا۔ اجلاس کے دور ان سینٹ میں سینیٹر رحمن ملک نے سی ڈی اے آرڈیننس ترمیمی بل پیش کیا۔ رحمن ملک نے کہاکہ سی ڈی اے چیئرمین کو گریڈ 20یا اس سے زیادہ گریڈ کا سرکای بندہ ہونا چاہئے۔رحمن ملک نے کہا کہ دوسرے اتھارٹیز کی طرح چیئرمین سی ڈی اے بھی سرکاری بندہ ہونا چاہئے۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ سی ڈی اے ممبرز اور چیئرمین کے بارے میں رولز کے بارے میں کابینہ میں طے ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ ایڈمنسٹریشن میں پڑھے لکھے اور ماہر لوگوں کو لایا جائے گا۔ جاوید عباسی نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تین ماہ پہلے فیصلہ دیا،حکومت اب بل لانے جا رہی ہے،جب بھی ہم بل لانے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکومت خود لانے کا کہا جاتا ہے،حکومت ہمارے بعد نہیں ہم سے پہلے سوچا جائے۔ قائد ایوان شبلی فراز نے کہاکہ اس طرح سے 20،21گریڈ کے عہدے پر اپنے منظور نظر لوگوں کو لایا جاتا ہے۔وفاقی وزیر تعلیم نے کہاکہ سی ڈی اے میں قابل اور پروفیشنل لوگوں کولانے کی ضرورت ہے۔ شفقت محمود نے کہاکہ سی ڈی اے میں لوٹ مار کی لوٹ مچی ہوئی تھیں،سی ڈی اے کو سرکاری بندوں کے بجائے پروفیشنل لوگ ہی ٹھیک ہی کر سکتے ہیں۔حکومت نے سی ڈی ایآرڈیننس میں ترمیمی بل کی مخالفت کیبل کی منظوری کیلئے چیئرمین کو ووٹنگ کرانی پڑی،بل واضح اکثریت سے قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھجوا دی گئی۔بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور فلاح کا بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔
اجلاس کے دور ان شادی کیلئے از کم 18سال مقرر کرنے کا بل ایوان میں پیش کیا گیا بل پیپلزپارٹی کی رہنماء سینیٹر شیری رحمان نے پیش کیا۔ جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی نے مخالفت کر دی اور اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دیا۔ مولاناعبد الغفور حیدری نے کہاکہ نکاح کیلئے کم از کم اٹھارہ سال مقرر کرنا اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلام میں اٹھارہ سال کا ہونا نہیں بلوغت کی شرط ہے۔انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ تو اٹھائس سال کے بعد بھی نکاح نہیں کرتے۔
انہوں نے کہاکہ کمیٹی میں بل متعارف ہوتے وقت ہمارا موقف بھی سننا چاہئے تھا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اسلامی ریاست ہے،اس میں اسلامی منافی کوئی بھی قانون نہیں سکتا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ شادی قانونی راستہ ہے،اس میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔سینیٹر مشتاق احمدنے کہاکہ اس بل سے غریب اور یتیم بچے،بچیوں کی شادیاں نہیں ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ بچے کی تعریف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔مشتاق احمدنے کہاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق 15سال کے عمر میں نکاح کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جب اللہ اور رسول نے پندرہ سال میں نکاح کی اجازت دیتے ہیں تو پارلیمنٹ پابندی کیسے لگا سکتے ہیں۔مولاناعطاء الرحمن نے کہا کہ اگر یہ قانون بن جائے تو ملک میں بے راہ روی پھیل جائیں گی۔انہوں نے کہاکہ یہ نازک معاملہ ہے اس کام میں جلدی نہ کی جائیں۔انہوں نے کہا کہ بل کو منظوری سے پہلے غور و خوض کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کوبھیجا جائے۔مولانا فیض محمد نے کہاکہ اسلامی قوانین کو پارلیمنٹ میں چیھڑ چھاڑ نہ کی جائیں۔انہوں نے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات لی جائیں۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے بچوں کے حقوق کا ہر ممکن تحفظ کیا جائیگا۔انہوں نے کہاکہ کسی بھی معاملے کی جانچ کیلئے ماہرین کی خدمات لی جاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ اسلامی معاملات کیلئے بھی ماہرین کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم نے مغرب کی طرف نہیں اسلامی قوانین کی طرف دیکھنا ہے۔وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ 2012-13میں اسی طرح کے بلز اسلامی نظریاتی کونسل نے شریعت کے خلاف قرار دیا ہے۔
نورالحق قادری نے کہا کہ لڑکا اٹھارہ سال سے کم اور لڑکی چودہ سال میں بالغ ہو جاتی ہیں۔ شیری رحمن نے کہاکہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے ہر بیس منٹ مائیں مرجاتی ہیں،شناختی کارڈ،ووٹ ڈالنے کیلئے اٹھارہ سال مگر شادی کیلئے کیوں نہیں۔ انہوں نے کہاکہ الجیریا میں 19،بنگلہ دیش میں 18,مصر میں 18اور سعودی شوری کونسل نے بھی 18سال مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اٹھارہ سال سے قبل بچوں کو زبردستی مزدوری پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بچوں کو ان کے حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ اسٹنٹنگ کی وجہ بھی کم عمری کی شادیاں ہیں۔قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بارے میں واضح فیصلہ نہیں دیا۔
انہوں نے کہاکہ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جس قانون پر عملدرآمد نہ ہو اس سے برا قانون کوئی نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہماری اقدار کے بارے میں قانون بنانا درست نہیں۔ انہوں نے کہاکہ زبردستی شادی کا عمر کی حد سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہاکہ میری بھی زبردستی ہوئی تھی،مگر میں خوش ہوں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سوشل سیٹ اپ میں کچھ برائیوں کے ساتھ ساتھ اچھائیاں بھی ہیں۔رضا ربانی نے کہاکہ شادی کے عمر کے تعین کیلئے یہ بل پہلے ہی اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جا چکا ہے،اس کواسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائیگا تو سرد خانے کی نذر ہو گا۔رضا ربانی نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے اسی طرح کا بل پہلے ہی پاس کی ہے،کسی بھی جماعت نے مخالفت نہیں کی۔
سینیٹر سستی پلیجو نے کہاکہ عورت اور بچیاں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بچیوں کو سانس لینے کی تو اجازت دیں۔ انہوں نے کہاکہ اسلام قبولیت اور آسانیاں پیدا کرنے کا دین ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلا کی غلط تشریح نہ کی جائیں۔ انہوں نے کہاکہ سب سے زیادہ دیہات میں رہنے والی بچیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شکار ہوتی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ شادی کے عمر کیلئے اگر قانون قرآن کی آیات ہیں تو اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہاکہ 18سال کی حد پاکستان پینل کورٹ میں بھی مقرر ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بل کے ذریعے شادی جائز مگر شادی کروانے والوں کو سزا ہو گی۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کیلئے ہے،پہلے عرب کی آبادی بہت کم تھی۔
انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے اجتہاد کرنے چاہئیں،مدینے کی ریاست بنی تھی تو شراب کی گڑوں کو توڑی گئیں تھیں،جبکہ وزیر اعلی پنجاب شراب کی پرمٹ جاری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ اصل میں مدینہ ریاست کی بات نہیں ملائیشیاء کی ریاست کی بات کی تھی،یہ زبان پھنسل گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میڈیکل کے تناظر میں بلوغت کی عمر 18سال کی عمر ہے۔ انہوں نے کہاکہ بچوں کی کم عمری میں شادی کے خلاف بل کثرت رائے سے منظور کر لی۔ اجلاس کے دور ان جماعت اسلامی،جے یو آئی ف کی شدید مخالفت جبکہ پی پی پی،مسلم لیگ ن،پختونخوا میپ،نیشنل پارٹی اور اے ایاین پی نے کھل کر حمایت کی،پی ٹی آئی نے بل کی خاموش حمایت کر دی۔بل پاس ہونے کے بعد جماعت اسلامی،جے یو آئی ف کے ارکان کا چیئرمین کے ڈائس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے واک آوٹ کر گئے