کراچی(این این آئی)مشیر اطلاعات قانون و اینٹی کرپشن سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ ڈیم فنڈ میں مبینہ خورد برد کی اعلی سطح پر انکوائری کی جائے وفاقی وزیر کے بیان کے بعد ڈیم فنڈ سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں، گورنر ہائوس میں فنڈ ریزنگ تقریب میں وزیراعظم نے 76 کروڑ روپے جمع کرنے کی نوید سنائی تاہم گورنر سندھ نے76 کروڑ کے بجائے صرف 67کروڑ روپے کا چیک وزیراعظم کو پیش کیا،
دوسروں پر جھوٹے الزام لگانے والوں ہر کرپشن ثابت ہورہی ہے۔ پی ٹی آئی کا جمہور اور نہ ہی جمہوریت سے کوئی تعلق ہے۔ آرٹیکل 149کا حوالہ دینے والے آرٹیکل 148، 137 اور 105کا مطالعہ بھی کرلیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سندھ اسمبلی میڈیا کارنر پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ الزام تراشی کی سیاست کی ہے انہوں نے 22سالہ سیاسی تاریخ میں دوسروں پر الزمات لگائے لیکن انکے الزامات آج تک ثابت نہیں ہوئے۔ عمران نیازی اور انکی ہمشیرہ پر الزام لگے تو وہ اسکا جواب نہیں دیتے۔ اکبر ایس بابر کی شوکت خانم اسپتال کی فنڈنگ کے خلاف پیٹیشن ہے لیکن اسکا کچھ نہیں ہوا۔ آج میں ایک اہم انکشاف کرنے جارہا ہوں یہ محض الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ بیرسٹر مرتضی وہاب نے بتایا کہ ایک وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے اپنے انٹرویو میں ڈیم فنڈ میں کیش جمع کرانے کے بجائے چیک کی صوت میں جمع کرانے کی درخواست کی ہے۔ اسکی ضرورت کیوں پیش آگئی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل گورنر ہائوس کراچی میں ڈیم فنڈ ریزنگ سے متعلق تقریب میں وزیراعظم عمران خان نیازی نے ٹوئٹ کیا کہ تقریب میں 76کروڑ روپے جمع کرلئے اس تقریب کے منتظم فخر عالم نے بھی بیان دیا کہ تقریب میں 76کروڑ روپے جمع ہوگئے لیکن گورنر صاحب نے وزیراعظم کو 67کروڑ روپے کا چیک دیا۔ بتایا جائے کہ
باقی پیسے کہاں گئے ؟ یہ سوال کوئی اپوزیشن رکن نہیں بلکہ وفاقی وزیر نے یہ سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دیگر چیمپئینز نے بھی بیان دیئے کہ ایک ارب روپے جمع ہوئے۔ دوسروں پر الزام لگانے والے میرے سوال کا جواب دیں۔ تحریک انصاف کا ایک بانی رکن اکبر ایس بابر بھی سولات اٹھا رہا ہے۔ پوری قوم کو اس سوال کا جواب چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اس سوال کو سیاسی الزام نہ سمجھے گا ۔
انہوں نے عدالت عظمی سے بھی معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اگر کوئی ہیرا پھیری ہورہی ہے تو اس کی انکوائری ہونی چاہئیے۔ بیرسٹر مرتضی وہاب کا مزید کہنا تھا کہ جب سے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی عوامی رابطہ مہم شروع کی ہے تو وفاقی حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے اور وہ پریشان نظر آتی ہے۔ وفاقی حکومت نے خود بھی اور اپنے اتحادیوں کے زریعے اٹھارویں ترمیم کے
خلاف تحریک شروع کردی ہے پی ٹی آئی کے اتحادی بھی یوٹرن لینے لگ گئے ہیں اٹھارویں ترمیم پر جب کام شروع ہوا تو ایم کیوایم پاکستان صوبائی خود مختاری پر متحرک نظر آئی تھی متحدہ بتائے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں کیا غلط چیز ہے؟ کیا وہ صوبوں کو خودمختار نہیں دیکھنا چاہتی کیا وہ صوبوں کے وسائل کے خلاف ہیں؟ جی ڈی اے کے دوست جو ماضی میں سندھ دھرتی کے نعرے لگاتے تھے
وہ کیوں خاموش ہوگئے؟ کیوں کب کشائی نہیں کررہے ؟ انہوں نے ککا کہ ایک وفاقی وزیر نے وزیراعظم سے آرٹیکل ایک سو اننچاس استعمال کرنے کی درخواست کی ہے یہ نادان دوست آرٹیکل ایک سو اڑتالیس ، ایک سو سینتیس اور ایک سو پانچ کا بھی مطالعہ کرلیں کہ جو کہتے ہیں کہ صوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ کے دوست کراچی کا مقدمہ کب لڑینگے؟
سندھ کو اسکے حصے کے فنڈز پر کب کراچی کے وفاقی وزرا لب کشائی کرینگے ؟ وزیراعظم کے سامنے سندھ کے پانی کا مقدمہ کب رکھیں گے۔ خدارا اپنی زمہ داری نبھائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کراچی کے عوام آپکے خلاف یوٹرن نہ لے لیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نو ماہ کی بچی نشوا کے معاملے کی وزیراعلی سندھ نے انکوائری کا حکم دیا ہے ہم صحت کے شعبے میں ریفارمز لارہے ہی میں
ہیلتھ کیئر کمیشن اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزرا کبھی عوام کی چینخیں نکالتے ہیں کبھی چھترول کرتے ہیں تو عوام جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا جمہور اور نہ ہی جمہوریت سے تعلق ہے۔ قومی عجائب گھر اور صحت کے شعبوں کی وفاق کو منتقلی سے متعلق ہم عدالت سے رجوع کرچکے ہیں تین ماہ ہوگئے وفاقی حکومت نے صحت کے ان تین شعبوں پر ایک روپیہ خرچ نہیں کیا۔
پولیس ایکٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا پولیس سندھ حکومت کا حصہ ہے آئین پاکستان کہتا ہے کہ ادارے کی پالیسی حکومت نے بنانی ہے انہیں کیوں تعجب ہورہا ہے؟ پالیسی بنانا حکومت اور اسکو نافز کرنا پولیس کا کام ہے۔ افسوس کہ اتنے وزرا کا تعلق کراچی سے ہونیکے باوجود اس شہر کی ترقی کے لئے کچھ کام نہیں کیا۔