اسلام آباد/لندن(اے این این ) وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی الیکشن میں نریندر مودی اور بی جے پی کی دو بارہ جیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی الیکشن میں مودی جیت جائیں تو مذاکرات بحالی کے بہتر مواقع پیدا ہوں گے،پڑوسی ملک کے الیکشن میں کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو شاید وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں تھوڑی جھجک کا شکار ہو۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف ایک اختلاف ہے جو کشمیر ہے،اسے حل ہونا چاہیے یہ مسئلہ سلگتا ہوا نہیں رہ سکتا ،جوہری طور پر مسلح ہمسائے اپنے اختلافات کو صرف مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتے ہیں، آسیہ مسیح محفوظ ہیں وہ چند ہفتوں میں پاکستان چھوڑ دیں گی،ان کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کس کا ہے اس پر میڈیا میں بات نہیں کر سکتا،کالعدم تنظیموں کو غیر مسلح کر رہے ہیں، مدارس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ،یہ جنگجو گروہوں کو غیر مسلح کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کے الزام میں بری کی جانے والی آسیہ بی بی بہت جلد پاکستان چھوڑ دیں گی ۔بی بی سی کے مدیر عالمی امور جان سمپسن نے انٹرویو میں پاکستانی وزیر اعظم سے پوچھا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ کیا ہوا، وہ ابھی تک پاکستان چھوڑ کر کیوں نہیں گئیں؟۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ آسیہ بی بی بہت جلد پاکستان چھوڑ دیں گی۔کیا ہم اس حوالے سے دنوں یا ہفتوں کی بات کر رہے ہیں؟۔اس کے سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا میرے خیال سے ہفتوں میں۔ ہم ہفتوں کی بات کر رہے ہیں۔کیا یہ آپ کا فیصلہ ہے؟
کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اس حوالے سے تھوڑی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور میں میڈیا سے اس بارے میں بات نہیں کر سکتا۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آسیہ بی بی محفوظ ہیں اور وہ ہفتوں کے اندر اندر پاکستان چھوڑ کر چلی جائیں گی۔بی بی سی کے مدیر عالمی امور جان سمپسن نے عمران خان سے پوچھا کہ وہ اس موقع پر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟۔عمران خان کا کہنا تھا کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہو گا اور یہ مسئلہ سلگتا ہوا نہیں رہ سکتا ہے۔
انڈیا کے ساتھ متنازع علاقے کشمیر میں امن خطے کے لیے بہت زبردست ہو گا۔عمران خان کا کہنا ہے کہ جوہری طور پر مسلح ہمسائے اپنے اختلافات کو صرف مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم غربت کو کم کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔غربت کو کم کرنے کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور دونوں ممالک کے درمیان صرف ایک اختلاف ہے جو کہ کشمیر ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہے کیونکہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ وہاں کے لوگوں کا ردِ عمل ہے، اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا جائے گا اور ہم ان پر الزام عائد کریں گے تو کشیدگی بڑھے گی جس طرح ماضی میں بڑھتی تھی۔ لہذا اگر ہم کشمیر کو حل کر سکتے ہیں تو برصغیر میں امن کے زبردست فوائد ہیں۔ عمران خان نے دونوں ممالک کے درمیان تصادم کے خطرات کے بارے میں بھی بات کی۔
جب آپ جواب دیتے ہیں تو کوئی بھی اس بات کی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ وہ کہاں تک جائے گا۔ اگر انڈیا پاکستان پر دوبارہ حملہ کرتا تو پاکستان کے پاس اس کا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس صورتِ حال میں دو جوہری مسلح ممالک نے، میں نے محسوس کیا کہ یہ بہت غیر ذمہ دار تھا۔ان سے پوچھا گیا اگر انڈیا کی حکومت کہے کہ آپ ابھی تک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مناسب کارروائی نہیں کر رہے اور جیشِ محمد کا رہنما ابھی بھی آزاد گھوم رہا ہے۔
آپ اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی ان تنظیموں کو غیر مسلح کر رہے ہیں۔اس میں جیش محمد بھی شامل ہے۔ ہم نے ان کے مدارس کا کنٹرول سنھبال لیا ہے، ان کی تنظیمیں بھاگ گئی ہیں۔ یہ جنگجو گروہوں کو غیر مسلح کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہم ان کے خلاف کارروائی کا عزم رکھتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس حوالے سے بیرونی دبا ؤنہیں ہے۔
کیونکہ یہ ہمارے مفادات میں ہے کہ ہمارے یہاں کوئی بھی عسکریت پسند گروہ نہیں ہے۔ایک دوسرے انٹرویو میںوزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا کے انتخابات میں مودی پھر سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو امن مذاکرات بحال ہونے کے بہتر مواقع پیدا ہوں گے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کا کہنا تھا اگر کانگرس انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو شاید وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں تھوڑی جھجک کا شکار ہو کیونکہ انھیں دائیں بازو کی جماعتوں کے ردِ عمل کا ڈر ہوگا۔
تاہم اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو جو کہ خود ایک دائیں بازو کی جماعت ہے تو شاید کشمیر کے معاملے پر کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔ان کا انڈیا میں جاری صورتحال کے بارے میں کہنا تھا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایسی صورتحال دیکھوں گا جو انڈیا میں جاری ہے جہاں مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے مسلمان کبھی وہاں بہت خوش تھے لیکن کئی برسوں سے وہ ہندو انتہا پسند قوم پرستوں کے باعث کافی پریشان ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نریندر مودی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کی طرح خوف اور قوم پرست جذبات کی بنیاد پر انتخابات لڑ رہے ہیں۔