کراچی (این این آئی) پاکستان ہندوکونسل کی مینیجنگ کمیٹی کے اجلاس میں ڈھرکی سے مبینہ طورپر اغوا ہونے والی رینا اور روینا نامی دو کم سن ہندو بہنوں اور میرپورخاص سے شانیا نامی ہندو بچی کے اغوا کا معاملہ زیرغور آیا،پاکستان ہندوکونسل نے سرپرست اعلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی سے استدعا کی گئی کہ وہ پارلیمان، میڈیا، سول سوسائٹی سمیت ہر فورم پر اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔
پانچ نکاتی قراردادِ کے متن کے مطابق ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے تمام ممبران پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی واقعات کی متفقہ طور پر مذمت کریں ، سندھ اسمبلی کے متفقہ طور پر منظور کردہ جبری مذہب تبدیلی کے بل کو دوبارہ زیرغور لایا جائے، واضح رہے کہ مذکورہ بل شدت پسند عناصر کے دبا پر کھٹائی کا شکار ہوگیا تھا۔ قرارداد کے متن میں سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے بچوں کی شادی کی عمر 18سال مقرر کرنے کے قانون کی فوری منظوری اور ملک بھر میں عملی نفاذ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رمیش وانکوانی نے اغواکاروں کی سہولت کاری میں سرگرم سندھ کی متنازعہ شخصیات میاں مٹھو اور پیر ایوب جان سرہندی کو بھی ہدف تنقید بنایا، ڈاکٹر رمیش کا کہنا تھا کہ مذہب کے نام پر نفرتوں کا پرچار کرنے والوں کے خلاف کالعدم تنظیموں کی طرز پر سخت ایکشن لیا جائے، قرارداد کے متن کے مطابق ڈاکٹر رمیش وانکوانی نے مطالبہ کیا ہے کہ ان نام نہاد مذہبی شخصیات سے پوچھا جائے کہ مردوں اور عمررسیدہ عورتوں کی بجائے صرف کم سن ہندو بچیاں ہی کیوں مذہب تبدیل کررہی ہیں؟ ڈاکٹر رمیش وانکوانی نے اپنی قرارداد میں مزید کہا کہ ایک امن پسند معاشرے کا قیام تمام پاکستانی شہریوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اقلیت اور اکثریت کی بحث سے بالاتر ہوکر قائداعظم کے وژن پر برداشت، رواداری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مل جل کر جدوجہد کی جائے۔