لاہور ( این این آئی) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی عدم موجودگی میں پنجاب آب پاک اتھارٹی بل 2019ء منظور کر لیا گیا ، اپوزیشن نے بل کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مسلسل رولز کی خلاف ورزی کررہی ہے،ایمرجنسی میں قانون ایوان سے پاس کروایا گیا،گورنر وفاق کا نمائندہ ہے اسے کیسے اس کا چیف ایگزیکٹو بنایا جاسکتا ہے،وزیر اعلی کے اختیارات کے برعکس گورنر کو لا محدود اختیارات دیئے جا رہے ہیں،
کیا حکومت عثمان بزدار پر عدم اعتماد کا اظہار کررہی ہے ۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی اپنے مقررہ وقت کی بجائے حسب معمول دو گھنٹے 10 منٹ کی تاخیر سے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں محکمہ آبپاشی کے بارے میں سوالوں کے جوابات متعلقہ وزیر سردارمحسن لغاری نے دیئے ۔ وزیر قانون ،پارلیمانی امور و بلدیات راجہ محمد بشارت نے ’’ پنجاب آب پاک اتھارٹی ‘‘ بل 2019 ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا ۔اپوزیشن کی طرف سے اس بل کی مخالفت کی گئی اور گورنر پنجاب کو پنجاب آب پاک کا چیف ایگزیکٹو بنائے جانے پر اعتراض کیا گیا۔اپوزیشن کا کہنا تھا کہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہے اسے کیسے اس کا چیف ایگزیکٹو بنایا جاسکتا ہے۔اپوزیشن رکن وارث کلو نے کہا کہ حکومت جلد بازی میں بل کو منظور کروانا چاہتی ہے ، پنجاب آب پاک اتھارٹی کا چیف ایگزیکٹو گورنر کو بنائے جانے پر اعتراض ہے ۔لیگی رکن سمیع اللہ خان نے گورنر پنجاب کے خلاف تحریک التواء کار جمع کرانے اور آبی اتھارٹی بل پر کہا کہ اسمبلی رولز کے مطابق پابند کیا گیا ہے کہ آپ گورنر کے خلاف بات نہیں کر سکتے، سوال یہ ہے کہ پھر گورنر کو کس قانون کے تحت اتھارٹی کا سربراہ بنایا جارہا ہے؟ ۔وزیر قانون سے اس بارے سوالات کرنا میرا حق ہے،گورنر پنجاب کے غیرملکی این جی اوز کے ساتھ تعلقات ہیں اور انہوں نے اس اتھارٹی کے تحت کام کرانے ہیں ۔موجودہ گورنر پہلے مسلم لیگ (ن) کے گورنر تھے،ہماری قیادت کو اطلاع ملی کہ گورنر صاحب کا واٹر فلٹریشن پلانٹ منصوبے پر نظر ہے،
مسلم لیگ (ن) کیساتھ انکے اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی تھی،اس بل کی منظوری سے آب پاک اتھارٹی کے تحت ایک بڑے اسکینڈل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبے کے اختیارات استعمال کرتی ہے،وزیر اعظم عمران خان پہلے ہی وزیر اعلیٰ کے اختیارات کو تجاوز کرتے ہیں۔ (ن)لیگ کی رکن اسمبلی عظمی بخاری نے’’ آب پاک ‘‘اتھارٹی بل کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آب پاک اتھارٹی کی سربراہی کسی صورت بھی گورنر کو نہیں دی جا سکتی،
گورنر کو اس قدر اختیارات دینا مخصوص قانون سازی ہو گا،یہ ڈیمانڈڈ قانون سازی آئین سے متصادم ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کروں گی۔انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کی خواہش بڑی پرانی ہے مگر صوبے کے چیف ایگزیکٹو وزیر اعلی ہیں،یہ بالکل غلط ہے کہ وزیر اعلی کی بجائے گورنر کو آب پاک اتھارٹی کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔آب پاک اتھارٹی کے بل کی منظوری کے معاملہ پراپوزیشن ایوان کا بائیکاٹ کرگئی۔جبکہ حکومت نے اپوزیشن کی عدم موجودگی میں آب پاک اتھارٹی بل 2019 منظور کرلیا۔قانون کی منظوری کے بعد اسپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ حکومت مسلسل رولز کی خلاف ورزی کررہی ہے،ایمرجنسی میں قانون ایوان سے پاس کروایا گیا۔پی کے ایل آئی کو بھی خلاف قانون پاس کیا،پی کے ایل آئی کو سرکار کی تحویل میں ڈال دیا گیا،تنخواہوں میں اضافے اور آب پاک اتھارٹی میں رولز کے معطل کرکے قانون سازی کی گئی،ماضی میں اس طرح قانون سازی نہیں ہوتی تھی،آج اٹھارویں ترمیم کے برعکس واحدانی طرز پر وزیر اعظم صوبے کو کنٹرول کررہے ہیں۔اپوزیشن کا کہنا تھا کہ صاف پانی میں جو الزام ہم پر لگا موجودہ حکومت اس کام کو قانون سازی کیلئے کرنا چاہتی ہے،حکومت گورنر پنجاب کو نوازنا چاہتی ہے،وزیر اعلی کے اختیارات کے برعکس گورنر کو لا محدود اختیارات دینا چاہتے ہیں۔کیا حکومت بزدار صاحب پر عدم اعتماد کا اظہار کررہی ہے،یہ دوہرا معیار ہے۔