اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدر آصف علی زر داری ، فریال تالپور ، سندھ حکومت ، اومنی گروپ اور انور مجید کی سات جنوری کے فیصلے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی بر آمدگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، الزاما ت پر تفتیش ہوگی ، آپ بری ہوگئے تو خوشی خوشی گھر جائیں ، پورا ملک مطمئن ہو جائیگا ،آپ کے اربوں روپے نہیں ہیں کسی کے تو ہونگے۔
منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں نظر ثانی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس فیصل عرب بینچ میں شامل تھے ۔سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو اور سندھ حکومت نے سات جنوری کے فیصلے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی تھیں ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں آپ نے سوموٹو اختیارات کے بارے میں بات کی تھی۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ تقریر نظیر نہیں ہوتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ نظر ثانی اپیلیں ہیں آپ کو غلطی بتانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آصف زرداری کی نظر ثانی اپیل پر بات کریں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ کسی بھی مقدمے میں درجہ بدرجہ نچلی عدالت سے مقدمہ اوپر آتا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسلامی تصور بھی ہے کہ اپیل کا حق ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب کے سامنے سارا مواد رکھا گیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کہا گیا کہ ریفرنس بنتا ہے تو بنائیں نہیں بنتا تو نہ بنائیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہم اس معاملے میں مداخلت کیوں کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ
ہم نے تو صرف متعلقہ اداروں کو تفتیش کے لیے کہا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس سے آپ کا اپیل کا حق کیسے متاثر ہوا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ سندھ حکومت جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کر رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تو تفتیشی افسران کو سکیورٹی دینا پڑی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ورنہ تو ان افسران کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جس خاتون کے نام پر جعلی اکاؤنٹ کھولا گیا اس کو ساری رات تھانے میں رکھا گیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ
ہم نے کہا کہ گواہان کو ہراساں نہ کیا جائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ رینجرز کی سکیورٹی مہیا کی گئی۔لطیف کھوسہ نے کہاکہ کیا ایف آئی اے کی طرف سے تفتیش میں سست روی پر سو موٹو لیا جاسکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اربوں روپے کا معاملہ ہے کسی قلفی والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹ سے برآمد ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق آپ مقدمے کی کارروائی دوسرے شہر منتقل کرنے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ
اگر آپ عدالت کے موقف سے متفق نہیں تو یہ نظر ثانی کی وجہ نہیں بن سکتی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگلا اعتراض یہ ہے کہ جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بننی چاہیے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ جے آئی ٹی معاملے پر نواز شریف کی نظر ثانی درخواست مسترد ہوچکی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہاکہ اس مقدمے کے حقائق نواز شریف کے مقدمے سے مختلف نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معاملے پر قانون طے ہوچکاہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بنیادی طور پر تو فالودے والے کو
درخواست دائر کرنی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کہ آپ میرے پیسے کہ بارے میں کیوں اتنی تفتیش کررہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی بنیاد پر مقدمہ نیب کو بھجوایا گیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ زرداری کہتے ہیں میرے پیسے ہی نہیں تو ان کا کیا تعلق ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ مقدمے کی دوبارہ سماعت نہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اس لیے لارجر بینچ کی استدعا کررہا ہوں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس مقدمے کے بہت سارے پہلو تشریح طلب ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ فاروق ایچ نائیک بہت سے پہلوؤں پر بحث کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جعلی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی بر آمدگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے ایک دوست سے پوچھا ایک ارب ہوتا کتنا ہے؟میرے دوست نے کہا کہ ایک ارب ڈالر اگر اکاؤنٹ میں ہو ،آپ 337 سال روانہ 14 لاکھ خرچ کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں سارا ملک خاموش ہو جائے، آپ کہتے ہیں میرے اکاؤنٹ نہیں ہیں تو مسئلہ کیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آپ پر الزام لگا تفتیش ہو گی،آپ بری ہوگئے تو خوشی خوشی جائیں،پورا ملک مطمئن ہو جائے گا۔ لطیف کھوسہ نے کہاکہ اگر آپ تمام کیسوں میں سست روی کا نوٹس لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال پر تفصیل بحث ہوچکی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آپ کے خلاف ریفرنس فائل نہیں ہوا، شاید کچھ نہ ملے تو ریفرنس فائل نہ ہو۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ زرداری صاحب کی بہن کو روز اسلام آباد طلب کیا جاتا ہے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آپ کے موکل کو ریکارڈ مہیا کرنے کے لیے سینکڑوں خط لکھے گئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ کے موکل نے ریکارڈ مہیا نہیں کیالطیف کھوسہ نے کہا کہ پر جھوٹ ہے جان بوجھ کر معاملے کو بڑھایا گیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ جہانگیر ترین نے مانا کہ نوکروں کے نام پر اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ غلطی کو چلنے دیا جائے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ نیب نے بینکنگ کورٹ کراچی کو مقدمے کی
اسلام آباد منتقلی کی درخواست کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نیب قانون کے تحت مقدمہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ لیکن آپ کے آرڈر سے میرے لیے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی آپ کے موکل ملزم بنے نہیں آپ پتہ نہیں کیوں یہ دلائل دے رہے ہیں،ابھی ریفرنس فائل نہیں ہوا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ بینکنگ عدالت کراچی میں مقدمہ چل رہا ہے نیب کیسے تفتیش کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم کا مقدمہ ہے
کوئی فوجداری مقدمہ نہیں۔لطیف کھوسہ نے مقدمے کی نظیر پیش کی جس میں آصف سعید کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے تفتیش میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ تفتیش میں مداخلت ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اداروں پر قبضہ کرلیا جائے تو ہم بے بس نہیں ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہاکہ ایف آئی اے کسی بھی ادارے سے تفتیش کے لیے مدد لے سکتی ہے،جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کو کیوں شامل کیا گیا؟بظاہر یہ دباؤ ڈالنے کا حربہ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سردار صاحب آپ تو کہہ رہے ہیں جے آئی ٹی بننی ہی نہیں چاہیے تھی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو سویلین معاملات میں مداخلت نہ کرنے دیں۔ جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ یہ عدالت تمام انتظامی اداروں سے مدد لے سکتی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ سرکاری ملازم صرف وہ کام کرسکتا ہے جس کی قانون میں اجازت ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ عدالت ایسا کام تفویض نہیں کرسکتی جس کی قانون میں اجازت نہیں۔لطیف کھوسہ نے کہاکہ میں آپ کی تقریر سے ایک پیرا پڑھنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی تو اس کی سیاہی خشک نہیں ہوئی آپ نے حوالہ دینا شروع کردیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے پانامہ مقدمے میں وضاحت کی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے پانامہ مقدمے میں سوموٹو کا اطلاق اس لیے کیا کہ اداروں پر قبضہ ہوچکا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے میں ایف آئی اے کو تفتیش کرنے نہیں دی جارہی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ اکاؤنٹ آپ کے موکل کے نہیں تو آپ کو کیا پریشانی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے موکل کے سارے خاندان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دئیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ای سی ایل کے حوالے سے یہ متعلقہ فورم نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اربوں روپے ادھر ادھر ہوگئے کسی کو تو تفتیش کرنی ہے۔چیف جسٹس نین کہا کہ اس لیے ہم نے معاملہ نیب کے سپرد کیا ہے۔ سماعت کے دور ان فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں توقع ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نیا ہوگا۔ فاروق ا یچ نائیک نے کہا کہ 7 جنوری کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا جے آئی ٹی کو منی ٹریل کی کھوج لگانے سے منع کر دیا جاتا؟ ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ غیر قانونی رقومات کو مختلف ذرائع سے جائز پیسہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ غیر قانونی پیسے سے جائیدادیں، شیئرز اور بہت کچھ خریدا گیا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ میں جے آئی ٹی کے اختیار پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی کو صرف جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش کے لیئے کہا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ شاید آپ نے سردار لطیف کھوسہ کے دلائل کی نقل کی ہے،کامہ، فل سٹاپ اور غلطیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نائیک صاحب مجھے بڑی حیرانی ہے، یہ تو ایسے ہے کہ مین کھودیں سونے کے سکوں کا گھڑا نکل آئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک آدمی بھاگتا بھاگتا آئے کہ مجھے نہ پوچھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مؤکل تو کہہ رہی ہیں کہ پیسے ان کے نہیں ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فریال تالپور ایک سپیشل بچے کی والدہ ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ انہیں دن رات اس کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہم نے فیصلے میں کیس کے میرٹس پر تو بحث کی ہی نہیں، تمام فریقین متفق تھے کہ معاملہ نیب کو بھجوایا جائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم نے صرف یہ کہا کہ معاملے کی تفتیش کی جائے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کراچی سے مقدمہ راولپنڈی منتقل کیوں کیا گیا وجہ سمجھ نہیں آرہی۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں بھی تفتیش ہو سکتی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ وقوعہ کراچی کا ہے تو تفتیش وہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک تھانے دار اپنے تھانے میں کہیں بھی بیٹھ کر تفتیش کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کے اختیارات پورے ملک میں ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کہا کہ اسلام آباد سمیت کہیں بھی تفتیش ہو سکتی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ آپ اس مقدمے کو سندھ سے کیوں نکال کر لے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جو آپ کی پریشانی ہے وہ اس فیصلے میں نہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ملزم تو عدالت کا لاڈلہ بچہ ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہاں تو ضدی بچہ بنا ہوا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ابھی تو آپ ملزم بنے ہی نہیں سماعت کے دور ان فاروق ایچ نائیک نے فریال تالپور کے معذور بچے کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کردیا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فریال تالپور کے ایک بیٹے نے خودکشی کرلی تھی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ اب صرف دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک معذور ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کے خلاف مقدمہ ختم ہو چکا ہے۔منیر بھٹی نے کہا کہ تفتیشی اداروں کو کچھ نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مقدمہ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہم نے جے آئی ٹی رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔منیر بھٹی نے کہاکہ اومنی گروپ کی شوگر ملوں پر قبضے ہو رہے ہیں۔ منیر بھٹی نے کہاکہ اومنی گروپ کے پاور پلانٹس بند کروا دیئے گئے ہیں۔ منیر بھٹی نے کہاکہ اس لیئے 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔منیر بھٹی نے کہاکہ اومنی گروپ کے لوگ 15 اگست 2018 سے جیل ہیں۔منیر بھٹی نے کہاکہ ابھی تک قانونی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں نیٹ ورک نظر آرہا ہے کون ملوث ہے کون نہیں یہ تحقیقات سے پتہ چلے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو ہم نے آ پ کو تحفظ دیا کیا آپ اس پر بھی نظر ثانی مانگیں گے۔ وکیل اومنی گروپ نے کہاکہ جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کو درست قرار نہیں دیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے بہت احتیاط سے کام لیا،ہم نے کہا ماہر لوگوں سے تحقیقات کرائی جائیں۔ وکیل اومنی گروپ نے کہا کہ میرا اعتراض یہ ہے کہ اربوں روپے کا معاملہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اربوں روپے نہیں ہیں کسی کے تو ہونگے ۔اومنی گروپ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد انور مجید اور عبدالغنی مجید کے وکیل کے دلائل شروع ہوئے ۔ وکیل مجید فیملی نے کہا کہ میرے موکلان اگست سے جیل میں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وہ جیل میں نہیں کراچی کے بہترین ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ وکیل مجید فیملی نے کہاکہ تمام ملزمان اور گوہان کا تعلق کراچی سے ہے۔وکیل مجید فیملی نے کہا کہ سپریم کورٹ چیئرمین نیب پر چھوڑ دے کہ کہاں تحقیقات کرانی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس داخل ہونے کے بعد آپ دوبارہ منتقلی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ وکیل مجید فیملی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم کی موجودگی میں ریفرنس کی منتقلی کیلئے ہائیکورٹ سے کیسے ریلف لیا جا سکتا ہے۔وکیل مجید فیملی نے کہاکہ جے آئی ٹی ایف آئی اے کی معاونت کیلئے تشکیل دی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا کہیں تاکہ ٹرائل شروع ہو جائے۔ مراد علی شاہ کے وکیل مخدوم علی خان نے روسٹرم پر پیش ہو کر مؤقف پیش کیا کہ میرے مؤکل کو کبھی تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا، بغیر سنے ان کے بارے میں آبزرویشن آئیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسی لیے ہم نے نیب کو تفتیش کے لیے کہا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے مراد علی شاہ کو نظرثانی اپیل دائر کرنے کی اجازت دیدی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے بلاول بھٹو کے وکیل خالد جاوید سے استفسار کیا کہ آپ اس مقدمے میں بطور اٹارنی جنرل پیش ہو چکے ہیں۔خالد جاوید نے کہا کہ میں کبھی پیش نہیں ہوا، میرے موکل کو بھی سنا نہیں گیا۔انہوں نے کہا کہ زبانی حکم میں ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے نام ہٹانے کا کہا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بلاول کو تو ابھی کال اپ نوٹس بھی نہیں گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت مفروضوں پر کام نہیں کر سکتی، مستقبل کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔سماعت تقریباً چار گھنٹے تک جار ی رہی دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے آصف زرداری، فریال تالپور اور اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید کی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آج جتنی بھی بحث ہوئی وہ سب خدشات پر ہوئی۔