اسلام آباد/لاہور(نیوزڈیسک ) سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو اسلام آباد بلانے کا معاملہ معمہ بن گیا،ایوانِ صدر، سینیٹ ترجمان اور قائمہ کمیٹی داخلہ سمیت پولیس کے الگ الگ موقف سامنے آگئے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کو وفاقی دارالحکومت بلانے کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔پولیس نے موقف اپنایا ہے کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ذیشان اور جلیل کے خاندان والوں کو طلب کیا تھا، ذیشان اور جلیل کے خاندان والوں کو پولیس لے کر اسلام آباد گئی تھی،
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے دونوں خاندانوں کو بلائے جانے کا لیٹر موجود ہے۔پولیس حکام نے بتایا کہ ذیشان اور جلیل کے خاندان والے سینیٹ کی بلڈنگ میں موجود رہے لیکن کمیٹی نے اندر نہیں بلایا۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے کسی کو بھی طلب کیا جائے تو پولیس ہی لے کر جاتی ہے جبکہ صدرمملکت اور چیئرمین سینیٹ کے بلانے پر کبھی پولیس کسی کو لے کر نہیں گئی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے سوشل میڈیا پر بیان میں پولیس کے موقف کو مسترد کردیا ہے۔ٹوئٹر پر اپنے بیان میں رحمان ملک نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے سانحہ ساہیوال کے لواحقین کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا، ساہیوال واقعے کے متاثرین اور مقامی کونسلرز کو آئندہ ہفتے نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ مقامی رکن قومی وصوبائی اسمبلی کو کمیٹی اجلاس میں بلایا جائے گا، وقوعے کے متاثرین کو سننا کمیٹی کے ایجنڈے میں پہلے سے شامل ہے۔رحمان ملک کے مطابق متاثرین کو لاہور سے اسلام آباد لانے کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جارہا ہے۔دوسری جانب ایوان صدر اور سینیٹ ترجمان نے متاثرہ فیملی کے ساتھ ملاقات طے کیے جانے کی تردید کر دی ہے جبکہ ایوان صدر کی جانب سے پنجاب حکومت کو اس حوالے سے تحقیقات کرنے کا بھی کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاندان کو کون اسلام آباد لایا ۔ترجمان سینیٹ نے بھی ملاقات طے ہونے کی تردید کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے متاثرہ خاندان کو نہیں بلایا گیا اور نہ ہی اس خاندان کی جانب سے ملاقات کے لیے کوئی پیغام ملا۔حکومت پنجاب سے اس معاملے سے متعلق وضاحت لی جائے گی۔سینیٹ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو کوئی تکلیف ہوئی ہے تو ان سے معذرت کی جاتی ہے۔