اسلام آباد (این این آئی)اپوزیشن نے سینٹ میں وزراء کی غیر حاضری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے دوسرے روز بھی ا یوان سے آؤٹ کیا ہے جبکہ چیئر مین سینٹ نے بھی وزراء کی عدم حاضری پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ وزراء کو بروقت اجلاس میں آنا چاہیے۔ جمعہ کو سینٹ اجلاس کے دور ان اپوزیشن نے وزراء کی غیر حاضری پر دوسرے روز بھی احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا ۔
چیئرمین سینیٹ نے بھی وزراء کی غیر حاضری پر برہمی کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزراء کو بروقت اجلاس میں آنا چاہیے۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ وزراء کی غیر حاضری پر وزیراعظم کو تحریری طور پر لکھ کر پوچھا جائے کہ وزراء کیوں نہیں آتے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ وزراء آتے نہیں یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اجلاس کے دور ان سینیٹر جاوید عباسی نے وزراء کی غیر حاضری پر احتجاج کے بعد واک آؤٹ کا اعلان کیا جس کے بعد اپوزیشن وزراء کی غیر حاضری پر مسلسل دوسرے دن واک آؤٹ کر گئی اس موقع پر سینیٹ اجلاس میں کورم کی نشاندہی کر دی گئی اور کورم پورا کرنے کیلئے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں تاہم حکومت اپوزیشن کو منا کر ایوان میں واپس لے آئی جس کے بعد اجلاس کی کارروائی دوبار ہ شروع ہوئی ۔سینیٹ میں قائداعظم یونیورسٹی کی زمین سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے بارے سینیٹر جاوید عباسی نے نکتہ اعتراض پیش کیا ۔وزیرمملکت خزانہ حماد اظہر کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں کہا گیاکہ قائداعظم یونیورسٹی کی زمین سے بے گھر لوگوں کا دیرینہ مسئلہ حل نہ ہونا سی ڈی اے کی نااہلی ہے۔ حماد اظہر نے کہا کہ وزیراعظم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک اعلی سطح کمیٹی بنائی ہے۔ وزیرمملکت خزانہ نے کہاکہ ہمیشہ سی ڈی اے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ۔حماد اظہر نے کہاکہ سی ڈی اے میں من پسند لوگوں کو تعینات کرکے زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ چیئرمین سینیٹ نے قائداعظم یونیورسٹی کی زمین سے بے گھر لوگوں کا معاملہ قائمہ کمیٹی داخلہ کے سپرد کردیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کی اقتصادی پالیسی کو سمجھنے کے لیے الیکشن اور اس کا نتیجہ سامنے رکھنا ضروری ہے ۔انہوں نے کہاکہ تمام بڑے کاروباری ہاؤسز
نے موجودہ حکومت کی انتخابی مہم چلائی ۔ رضا ربانی نے کہاکہ بڑا کاروباری طبقہ سمیت دو نئے طبقات ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ انہونے کہاکہ دوسرا طبقہ بیرون ملک پاکستانیوں کا ہے جنہوں نے باہر جائیدادیں بنائیں ،حکومت کا بجٹ بڑے طبقات اور کاروباری ہاؤسز کا بجٹ ہے ،بجٹ میں بڑے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہ سرمایہ کاروں کے تحفظ کے لیے مزدور یونین کو
پنپنے نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہ حکومت کی پالیسی مزدور طبقہ کو کرش کرنا ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہ ایک سال کے عرصہ میں چار بجٹ آچْکے ہیں لیکن پرانا این ایف سی ایوارڈ برقرار ہے ۔ رضا ربانی نے کہاکہ حکومت آرٹیکل 160کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے۔رضا ربانی نے کہاکہ کابینہ اجلاس میں واضح پیغام دیا گیا ہے مزدوروں کی یونینز کو پنپنے نہیں دینگے۔
انہوں نے کہاکہ افسوس کی بات کے لیے ایک سال کے چاروں بجٹ میں این ایف سی ایوارڈ کو نظر انداز کیا گیا انہوں نے کہاکہ وفاق کو نئے فنڈز مل رہے ہیں مگر صوبوں کو بجٹ نہیں دیا جا رہا،تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یا تو اس ملک میں بلواسطہ یا بلا واسطہ فوج کا کردار رہا ہے،مشرف نے بھی صوبوں کا بجٹ 53 فیصد سے کم کر کے 43 فیصد کیا۔انہوں نے کہاکہ سندھ سے گیس آرہی ہے اور سندھ کو گیس نہیں دی جا رہی۔
رضا ربانی نے کہاکہ صوبوں کو نظر انداز کرنا آئین کے آرٹیکل 153 کی خلاف ورزی ہے۔رضا ربانی نے کہاکہ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافی کر دیا گیا ہے،اس بجٹ میں مراعات حاصل کرنے والی کلاس موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ ڈویلپمنٹ فنڈ ضیاء نے متعارف کرایا اور مشرف نے بھی اس اختیار کیا،اس بجٹ میں بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن کا اطلاق 2019 میں ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ دواؤں میں ہوشربا اضافے پر تشویش ہوئی ہے۔رضا ربانی نے کہاکہ اس بجٹ میں میڈیا کو جو ریلیف دیا گیا اس میں مالکان کو فائدہ ہوگا،ہزاروں ایسے صحافی ہیں جنہیں دو سے تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی،اگر یہ ریلیف دینا تھا تو صحافیوں کو بھی مد نظر رکھا جاتا،یہ بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے ۔ رضا ربانی ے کہاکہ اس بجٹ میں غریب ، مزدور اور محنت کش طبقات کے لیے کچھ نہیں ہے۔
رضا ربانی نے کہاکہ جون جولائی کے بجٹ کا اعلان بھی ابھی کردیا گیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ سینیٹرمشتاق احمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اس حکومت کو ملک سے سود کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہیے تھا،اگر یہ ریفارم بجٹ نہیں تو عوام کو لالی پاپ دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ 9 سو سے زائد شخصیات نے 4 کھرب 30 ارب 4 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔
این ایف سی ایوارڈ نا دیکر صوبوں کے معاشی مفاد نقصان پہنچایا گیا، انہوں نے کہاکہ دو سو ارب روپے سے زائد خیبر پختونخوا کو نہیں دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں 2 سو سے ڈھائی سو ارب کا کٹ لگایا گیا۔ انہوں نے کہاکہ منی بجٹ سے ایک دن قطر نے قبل 3 ارب ڈالر قرض دیا۔انہوں نے کہاکہ قرض علاج نہیں دائمی مرض ہے،امپورٹ بل کو کم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ پیٹرول،بجلی،دواؤں میں ریلیف کے بجائے ریت بڑھا دیئے گئے،بجلی کی قیمت میں 57 پیسے فی یونٹ اضافے سے عوام پر 4 ارب کو بوجھ پڑیگا۔
حکومتی رکن اعظم سواتی نے کہاکہ جہاں ریاست قانون اور آئین کے ذریعے اختیار دیتی ہے وہی احتساب کا بھی اختیار دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ میرے خلاف ازخود نوٹس ہوا تو سب سے پہلے میں نے استعفیٰ دیا،میں تمام وزراء کے پاس گیا سب نے کہا تم بے قصور ہو،ڈاکٹر بابر اعوان کے بعد میں دوسرا وزیر تھا جس نے استعفیٰ پیش کیا،میڈیا ہاؤسز میں بعض بیٹھے ہوئے پنڈتوں نے مجھ پر الزامات لگائے،الزام لگایا گیا کہ میرے خلاف امریکہ میں میرے خلاف کیسز درج ہیں،مجھ پر الزام لگایا گیا ہے میں ٹیکس ادا نہیں کرتا۔